غزل

یہ تحریر 715 مرتبہ دیکھی گئی

نہ یہاں ہوں مَیں، نہ وہاں ہوں مَیں
جو کہیں نہیں تو کہاں ہوں مَیں

جسے ڈھونڈتا ہوں یہاں وہاں
وہ وہیں نہیں ہے جہاں ہوں مَیں

مرے سائے میں تری چوٹیاں
تری وادیوں میں رواں ہوں مَیں

مری دُھوپ ڈھلتے ہی تُو بھی شب
تُو جوان ہے جو جواں ہوں مَیں

تجھے خواب بھیجوں گا رات بھر
تُو جہاں رہے گا وہاں ہوں مَیں

مَیں کہ بے نشان ہوں دہر میں
کسی بے نشاں کا نشاں ہوں مَیں

نہ میں بعدِ فجر کا خواب ہوں
نہ تہجدوں کی اذاں ہوں مَیں