غزل

یہ تحریر 653 مرتبہ دیکھی گئی

o

تو مرے ساتھ ہی تھا پھر بھی میں تنہا کیوں تھا
ترے ہوتے ہوے میں اتنا اکیلا کیوں تھا

لینا دینا تھا نہ کچھ اہلِ جہاں سے مجھ کو
ہاتھ خالی تھے مرے پھر یہ جھمیلا کیوں تھا

زندگی ساری تری راہ گزر میں گزری
ترے آنے کا مجھے اتنا بھروسا کیوں تھا

اک چکا چوند سی اب تک ہے مری آنکھوں میں
میں نے دیکھا اُسے، پر اتنا بھی دیکھا کیوں تھا

عکسِ خورشید تھا، مہتاب کہ چہرہ اس کا
کوچہء یار میں کل رات اجالا کیوں تھا

مرا ہونا بھی ترے ہونے پر موقوف تھا کیوں
ہر غمِ زیست کے پیچھے ترا چہرہ کیوں تھا