غزل
اشفاق عامر
ہو جائے کہاں اس کی شروعات کا کیا ہے
دل ہو تو محبت میں مقامات کا کیا ہے
ہر روز بدل جاتی ہے بازار میں قیمت
اس شہر میں مزدور کی اوقات کا کیا ہے
آنکھوں میں سدا تیرتے رہتے ہیں یہ بادل
ہو جائے کسی وقت بھی برسات کا کیا ہے
مشکل ہوں تو مشکل سہی آساں ہوں تو آساں
آخر کو گزر جاتے ہیں دن رات کا کیا ہے
دو دن نہ ملا وہ تو پریشان ہو کتنے
ہو جائے گی اک روز ملاقات کا کیا ہے
آنکھیں تو دکھا دیتی ہیں جو موڑ بھی آئے
اب اس میں کسی کشف و کرامات کا کیا ہے
موسم کے بدلنے پہ بدل جاتے ہیں خود ہی
اس دل میں بھڑکتے ہوئے جذبات کا کیا ہے
خوابوں کی زمیں اور ہے خوابوں کا فلک اور
ہوتے ہیں تو ہوں ارض و سماوات کا کیا ہے