غزل

یہ تحریر 2212 مرتبہ دیکھی گئی

غزل

اشفاق عامر

ہو جائے کہاں اس کی شروعات کا کیا ہے

دل ہو تو محبت میں مقامات کا کیا ہے

ہر روز بدل جاتی ہے بازار میں قیمت

اس شہر میں مزدور کی اوقات کا کیا ہے

آنکھوں میں سدا تیرتے رہتے ہیں یہ بادل

ہو جائے کسی وقت بھی برسات کا کیا ہے

مشکل ہوں تو مشکل سہی آساں ہوں تو آساں

آخر کو گزر جاتے ہیں دن رات کا کیا ہے

دو دن نہ ملا وہ تو پریشان ہو کتنے

ہو جائے گی اک روز ملاقات کا کیا ہے

آنکھیں تو دکھا دیتی ہیں جو موڑ بھی آئے

اب اس میں کسی کشف و کرامات کا کیا ہے

موسم کے بدلنے پہ بدل جاتے ہیں خود ہی

اس دل میں بھڑکتے ہوئے جذبات کا کیا ہے

خوابوں کی زمیں اور ہے خوابوں کا فلک اور

ہوتے ہیں تو ہوں ارض و سماوات کا کیا ہے