غزل

یہ تحریر 596 مرتبہ دیکھی گئی

o

شفق کے رنگ میں صبحِ صدا کے ساتھ رہنا تھا
سکوتِ شام میں اس دل ربا کے ساتھ رہنا تھا

تمھارے شہر کی گلیاں تمھارے شہر کے کوچے
انھی کے بیچ بابِ نیم وا کے ساتھ رہنا تھا

ہمیں اس شاخِ گل سے چھیڑ کرنا بھی نہیں آیا
ہمیں کچھ اور دن ابر و ہوا کے ساتھ رہنا تھا

ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں تھیں وہ سرمہ سا آنکھیں
انھی کے روبرو اس خوش ادا کے ساتھ رہنا تھا

کہاں اب ایسی محفل اور ایسے حلقہء یاراں
انھیں یاروں کی بزم دل کشا کے ساتھ رہنا تھا

وہ جس کے واسطے ہم گوش بر آواز رہتے تھے
اسی شیریں سخن شیریں نوا کے ساتھ رہنا تھا

تمھارے شہر کے خوباں، وہ خوبانِ ستم پیشہ
انھی کے پاس انھی اہل جفا کے ساتھ رہنا تھا