غزل

یہ تحریر 598 مرتبہ دیکھی گئی

لگا ہے جب سے مرے دل کو عشق کا آزار
کلیجہ کاٹتی رہتی ہے سانس کی تلوار

وہ غنچہ لب، سمن اندام، آتشیں رخسار
اور ایک میں، خس و خاشاکِ کوچہ دلدار

کچھ اس طرح کسی آئینہ رو کی یادیں ہیں
گزر رہی ہو کوئی جیسے جگنوؤں کی قطار

مآلِ عشق کڑی دھوپ کے سفر جیسا
نہ کوئی چھاؤں شجر کی نہ سایہ دیوار

پڑا ہو آنکھ میں جس طرح ریزہ الماس
جگر میں ایسے کھٹکتا ہے عشق کا آزار
حریمِ عشق میں جب سے میں سجدہ ریز ہوا
بہ زیرِ سایہ محرابِ ابروئے دلدار

مری جبیں پہ دمکتا ہے اک گلِ سجدہ
مری ہتھیلی پہ روشن ہے طالعِ بیدار

ہے دسترس میں مری وسعتِ زمین و زماں
مری نگاہ میں رہتے ہیں ثابت و سیّار

میں دیکھ سکتا ہوں دیوارِ جان و تن سے پرے
مری نظر میں ہے کشفِ حجابِ لیل و نہار

مرے لبوں پہ مہکتا ہے اک گلِ نغمہ
مری زباں پہ ہے شوقِ دل و نظر کی پکار

یہ کائنات مرے ساتھ سانس لیتی ہے
مری رگوں میں دھڑکتی ہے وقت کی رفتار