غزل

یہ تحریر 651 مرتبہ دیکھی گئی

دیواروں سے ٹکرانا سَر رُکنا مت
پانی ہو جائیں گے پتّھر رُکنا مت

دِہلیزیں، زنجیریں بھی بن جاتی ہیں
جانا ہے تو دہلیزوں پر رُکنا مت

رَستہ دیکھنے والی آنکھیں خواب ہُوئیں
دَروازے پر دَستک دے کر رُکنا مت

دریا! میرے بعد بھی پیاسے آئیں گے
بہتے رہنے سے اُکتا کر رُکنا مت

آج یہ گُلشن وِیراں ہے کَل مہکے گا
گاتے رہنا گیت برابر رُکنا مت