غزل

یہ تحریر 2259 مرتبہ دیکھی گئی

غزل

اشفاق عامر

زندگی کوئی سزا ہے نہ جزا ہے اے دوست

بس یونہی دشت میں یہ پھول کھلا ہے اے دوست

وقت کی دین ہے جو درد ملا مان لیا

اب شکایت ہے کسی سے نہ گلہ ہے اے دوست

پھڑپھڑاتا ہے خیالوں کا پرندہ دل میں

لفظ زندان تعطل میں پڑا ہے اے دوست

جگمگانے لگے پھر یادوں کے سائے دل میں

آنکھ میں شعلہء غم تیز ہوا ہے اے دوست

چلتا پھرتا وہ نظر آیا بہت پاس اپنے

اور یہ خواب اداسی کا صلہ ہے اے دوست

دیکھ اس بار کوئی اور ہی جھگڑا ہوگا

میرے آنگن میں دیا ہے نہ ہو اے دوست

ایک آواز سی آئی ہے کہیں باہر سے

اک پرندہ مرے اندرسے اڑا ہے اے دوست

بس تجسس میں چلے جاتے ہیں سب لوگ کہیں

کوئی منزل ہے نہ منزل کا پتا ہے اے دوست

کیسے پہناؤں میں الفاظ کا جامہ اس کو

حسن الفاظ کے جامے سے بڑا ہے اے دوست