غزل
اشفاق عامر
زندگی کوئی سزا ہے نہ جزا ہے اے دوست
بس یونہی دشت میں یہ پھول کھلا ہے اے دوست
وقت کی دین ہے جو درد ملا مان لیا
اب شکایت ہے کسی سے نہ گلہ ہے اے دوست
پھڑپھڑاتا ہے خیالوں کا پرندہ دل میں
لفظ زندان تعطل میں پڑا ہے اے دوست
جگمگانے لگے پھر یادوں کے سائے دل میں
آنکھ میں شعلہء غم تیز ہوا ہے اے دوست
چلتا پھرتا وہ نظر آیا بہت پاس اپنے
اور یہ خواب اداسی کا صلہ ہے اے دوست
دیکھ اس بار کوئی اور ہی جھگڑا ہوگا
میرے آنگن میں دیا ہے نہ ہو اے دوست
ایک آواز سی آئی ہے کہیں باہر سے
اک پرندہ مرے اندرسے اڑا ہے اے دوست
بس تجسس میں چلے جاتے ہیں سب لوگ کہیں
کوئی منزل ہے نہ منزل کا پتا ہے اے دوست
کیسے پہناؤں میں الفاظ کا جامہ اس کو
حسن الفاظ کے جامے سے بڑا ہے اے دوست