غزل

یہ تحریر 864 مرتبہ دیکھی گئی

علی افتخار جعفری
غزل

ہووے گا تماشا پسِ افلاک کہیں اور
پہنچے گی ِمرے بعد مِری خاک کہیں اور

جِس خواب کی وحشت میں گُزاری ہے شبِ عمر
پہنیں گے اُسی خواب کی پوشاک کہیں اور

آئے ہیں ِکسی عالَمِ بے صَوت و خَبرَ سے
بہ جائیں گے اپنے خس و خاشاک کہیں اور

سِمٹے گا کسی طور نہ شیرازہئ ہستی
آتِش ہے کہیں اَور گِل و چاک کہیں اور

اِک عُمر کی حَسرت نہیں کافی کہ جُنوں میں
ترسے گا ابھی یہ دِلِ ِصد چاک کہیں اور