بھولی بسری ایک کہانی سن رکھی ہے
دل نے اک دیوار گریہ چن رکھی ہے
عمر کے چرخے پر خواہش کے دھاگے سے
میں نے سمجھوتے کی چادر بن رکھی ہے
جس کی لے پر بے خود ہو کر جھوم اٹھے من
عشق کے سر منڈل میں ایسی دھن رکھی ہے
دیکھ سکو تو کلیوں کے چہرے دیکھو
بھنورے کی بانی میں کیا گن گن رکھی ہے
دل کا تو کیا یہ جیون بھی رقصاں لرزاں
تیرے پگ کی پایل میں وہ چھن رکھی ہے
غزل
یہ تحریر 1026 مرتبہ دیکھی گئی