غزل

یہ تحریر 737 مرتبہ دیکھی گئی

نہ کر سکے گا رضا و قضا بہَم کوئی اور
یہ رَنج کھینچے گا راہِ وَفا میں کم کوئی اور

فَنا کی گرَد میں کھوئے ہیں خال و خط جس نے
عدم کی رہ میں اُٹھائے گا اب قدم کوئی اور

بڑھے گا پھر کوئی لشکر کِسی کنارے پر
اُٹھے گا خاکِ غریباں سے پھِر عَلَم کوئی اور

یہ کھوجتا ہے فلک کِس کو واژگوُں ہو کر
زمیں میں کھویا ہے کیا گوہرِ عدم کوئی اور

نہیں یہ کھیل فقط منظروں کے ڈَھلنے کا
مَیانِ فہم و تماشا ہے چشمِ نَم کوئی اور

حدِ زمان و مکاں سے گُزر رہے ہیں مگر
کِسی کو فکرِ دو عالم کسی کو غم کوئی اور