غزل

یہ تحریر 852 مرتبہ دیکھی گئی

دُکھ کڑی مُسافت کا راستوں کو کیا معلوم
منزلوں پہ کیا گُزری فاصلوں کو کیا معلوم

دسترس تصور کی خواہشوں کو کیا معلوم
ہجرِ یار کی لذّت صُحبتوں کو کیا معلوم

بے جگہ برسنے پر اَبر سے گِلہ کیسا
کون کِتنا پیاسا ہے بارِشوں کو کیا معلوم

حُسن کی تو فِطرت ہے بس یونہی سجے رہنا
چشم وا کہاں ہو گی منظروں کو کیا معلوم

آگ کی لکیریں تھیں کِھنچ گئیں زمینوں پر
گھر جلے کہ دِل اپنے سرحدوں کو کیا معلوم