’غالب کا جہان معنی‘از اسلم انصاری

یہ تحریر 2278 مرتبہ دیکھی گئی

                غالب پر بہت لکھا گیا ہے لیکن لوگو ں کی سیری اب بھی نہیں ہوتی۔ ہم سبھی ارمان رکھتے ہیں کہ غالب پر کچھ لکھ کر(خواہ وہ معترضانہ ہی کیوں نہ ہو) اپنی ہستی کے قیام کے ایک مضبوط ستون قائم کر دیں۔ یا یوں کہیں تو بھی غلط نہ ہوگا کہ کوئی کتناہی لکھے،غالب کی سیری نہیں ہوتی۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ غالب کی شاعری کئی طرح سے اس آشوب کی آئینہ دار ہے جس سے ہم گذشتہ ڈیڑھ دو صدیوں سے گذرتے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ معنی کی سطح پر غالب کے یہاں امکانات کا اس قدر وفور ہے کہ اس معاملے میں میر کے سوا شاید ہی کوئی شاعر قابل ذکر ٹھہرے۔لیکن فرق یہ ہے کہ میر کے یہاں جو باتیں احساس کی زبان میں بیان ہوئی ہیں وہ غالب کے یہاں تعقل کی زبان میں بیان ہوئی ہیں اور اسی لئے وہ فوری طور پر استعجاب اور استفہام پیدا کرتی ہیں۔

                اسلم انصاری کو میں ایک اعلیٰ درجے کے غزل گو کی حیثیت سے جانتاتھا۔ان کی کئی غزلیں میں نے بڑے اہتمام سے ’شب خون‘ میں شائع بھی کی تھیں۔ان غزلوں سے یہ تو متبادر ہوتا تھا کہ شاعرکو فارسی لفظیات اور سبک ہندی کی شاعری سے خاص شغف ہے۔لیکن اب جو ان کی کتاب ’غالب کا جہان معنی‘ دیکھنے کو ملی تو معلوم ہوا کہ وہ فارسی ادبیات، عالمی تصورات و افکار اور بیدل وغالب کے بھی نہایت باریک بیں طالب علم ہیں۔ کتاب میں خیال افروز نکات کی کثرت ہے، مثلاً ایک جگہ وہ غالب کو بیدل سے متاثر بتاتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ بیدل کی شاعری کی اصل حافظ کے یہاں نظر آتی ہے۔ وہ نہایت جرأت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غالب کے یہاں عشق کا تجربہ میر کے تجربے کی طرح آفاقی نہیں ہے۔ غالب کو وہ حقیقت مطلق کی تلاش میں سرگرداں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ہر بڑاشاعر حیات و کائنات کی ایک عقلی تعبیر چاہتا ہے جسے وہ اپنے تخلیقی کشفی ادراک کے ساتھ ربط دے سکے۔‘ میرا خیال ہے شاید یہ یہی وجہ ہے کہ غالب کا کلام بیسویں اور اکیسویں صدی کے ذہن کوہمیشہ اور ہمہ وقت متوجہ کرتا رہاہے۔

                اس بات میں بحث کی گنجائش ہے کہ ہر بڑا شاعر عقلی تعبیرات کی تلاش کرتا ہے،لیکن غالب کے یہاں وفور معنی (یعنی ابہام)کے باعث اس حکم کا امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ وہ تعقل کوش ہیں۔اسلم انصاری نے عمدہ بات کہی ہے کہ غالب کی یہ صلاحیت ’اس تجزیاتی رویے سے پیدا ہوتی ہے جسے سبک ہندی کے شعرا خیال بندی اور مضمون آفرینی میں صرف کرتے رہے ہیں۔‘ان کی یہ بات بھی پتے کی ہے کہ غالب ’انسانی حسن سے کائناتی حسن کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔‘

                اس کتاب میں بعض ایسے مسائل بھی اٹھائے گئے ہیں جن سے ہم اردووالے عام طور پر گریز کرتے رہے ہیں۔ مثلاً غالب کے کلام میں ’نسائی‘ ]تانیثی؟[ آواز، غالب اور ذوق، اورتفہیم غالب و بیدل میں تسامحات۔ اس طرح اسلم انصاری نے غالب کو  صرف تعبیر ہی نہیں،تعیین قدر کے بھی تناظر میں لا کردیکھا ہے۔ اس کتاب کوغالبیا ت میں اہم اضافہ قرار دیا جائے گا۔

الٰہ آباد، اگست ۲۰۱۵                                                    شمس الرحمٰن فاروقی