عراق میں چند روز

یہ تحریر 876 مرتبہ دیکھی گئی

دُنیا کے کئی مُلکوں کی سَیر کے دوران میں اِس طرح کے سوالات مسافر کے ذہن میں آئے۔چرچ اور سٹیٹ کہاں ملتے ہیں اور کہاں الگ ہوتے ہیں؟ یہ مسئلہ دیگر مذاہب میں رہا ہو یا نہ ہو، ابراہیمی مذاہب میں ہمیشہ سر اٹھاتا رہا ہے۔ عیسائی اور یہودی تو اِن  معاملات کو الگ کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ مسلمان فرق سمجھ کر اطلاق کر بھی رہے ہوں تو حکمرانوں اور ملُّاؤں کے وسیع تر مفاد میں ہربار کچھ عرصے بعد کسی خطے میں اُنکو گڈ مڈ کرکے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں، جسے کچھ انقلاب کہہ ڈالتے اور کچھ تباہی۔ عربوں کےیہاں  یہ رسّہ کشی  آخری نبیؐ کے آنے سے پہلی بھی تھی اور آخری نبیؐ کے دُنیا سے پردہ فرمانے کےفورًا بعد بھی شروع ہو گئی۔ صرف نبیؐ  کی زندگی میں طاقت اور شراب کے  نشے اُس سماج  میں معدوم رہے۔ نبیؐ پاک کے زمانے کےبعد کے حالات طبری کے یہاں  پڑھیں یا لیزلے ہیزلٹن کی کتاب “آفٹر دَ پرافٹ “میں ملاحظہ کریں،جی چاہتا ہےتاریخ و جغرافیہ کا نام بدل کر سازش و عبرت رکھ دیں۔طاقت و حکومت کا نشہ، مقتدرہ کاخود کو دین  کے لیےکسی الہامی وجود کی طرح لازم و ملزوم سمجھنے کا مغالطہ، پَے در پَے غلطیوں کا سلسلہ یہ سب نبی کے خاندان کے لیے ہی  شدید امتحان کا باعث نہیں بنا،بلکہ اُمّت میں بھی اَن مٹ خلیج  بھی پیدا  کرگیا۔

مذہب توانسانوں کو جوڑنے کے واسطے ہوتے ہیں، پھر یہ بگاڑ کیوں پیدا ہُوا؟جب تک تاریخ و ادب کا معقول مطالعہ نہیں  کیا تھا اور دین کی سمجھ درسی کتب محدودتھی، تو ایک خاص طرح کااطمینان حاصل تھا۔ آگہی کا عذاب نہ جانے کتنے بت توڑ گیا۔ دل مانتا ہی نہیں تھا کہ صفین و جمل و کربلا بھی ہماری تاریخ کا حصّہ ہیں۔ غزہ کے مسئلے پر اُمّت کی بے حسی کی دُہائی دینے والے صحافی اور غیر صحافی،آخری نبیؐ  کے دُنیا سے پردہ فرمانے  کے  محض پچاس سال کے بعدنبیؐ کے رفقا اور اُن کی  آل اولاد سے برتی گئی بے حسی  نہ جانےکیوں بھول جاتے ہیں؟اُنھیں یاد نہیں رہتا کہ پہلی صدی ہجری میں ہی اہلِ حق کے ساتھ کیاسلوک کیا گیا؟

چودہ سو سال سے آئینہ وہی ہے، چہرے بدل جاتے ہیں۔ وہی حکومتی ٹولے، جنگ وجدل، طاقت کی ہوس،ریاست اورمذہبی ادارے کبھی مل کر تو کبھی  باہم لڑجھگڑ کرگویا عام لوگوں کو یرغمال بنائے ہُوئے ہیں۔ پچھلے سال جو سوالات مسافر کو ایران لے گئے تھے، اِس سال‏ کم وبیش اِنھی سوالوں کے  ساتھ بندہ عراق گیا۔ معاملہ زیادہ گمبھیر تھا کہ جس مذہب کو مان کر یا جس کی مان کر ہم زندگی نپٹائے جا رہے ہیں، اُس مذہب کے آخری نبیؐ کے خاندان پر ظُلم  اُسی دھرتی پر ہُوااورپھریہ سب کسی دوسری قوم نے نہیں، بل کہنبیؐ کے اُمّتیوں نے کیا۔ یہاں مذہب، سیاست، حکومت،  ہوس ،فریب ، علم، عمل، معاملہ فہمی کا فقدان، قربانی، بربریت، صبر، آزمایش سب ایسے گڈ مڈ ہوتے کہ اس واقعے پر بعض اوقات  رائے قائم کرتے ہُوئے جھجک ہوتی ہے۔ مذہب کو گو ایک طرف رکھنا مشکل ہے ،مگر ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو  یوں محسوس ہو گا جیسےبابل و بغداد ہماری تاریخ اور اجتماعی لاشعور کا اٹوٹ حصّہ ہیں۔ پھر کربلا اور نجف بھی چودہ سو سال سے  ہمارے لیے معنی خیزاور مربوط حوالہ ہیں۔ عباسیوں سے ہولاگو خان تک اور وہابیوں اور ترکوں سے صدام تک بنتی بگڑتی، بہت کچھ سہتی یہ سرزمین اور اِس کی تہذیب اب بھی زندہ ہے۔ زمین پر اکیسویں صدی میں خدا کے خودساختہ نائب اور بہت ہی طاقت  ور مُلک امریکا نے بھی ۹/۱۱ کے بعد براہِ راست ستم توڑنے کی کوشش کی، مگر شاید قسمت نے اپنی طاقت کا کچھ حصّہ ہی سب سے  طاقت ورمُلک کو دیا ہے۔ باقی اپنے  پاس رکھاہُوا ہے،یہ ہی وجہ ہے کہ قدرت نےعرب کے اِس حصّے کو ایک بار پھر بچا لیا جس طرف  راقم  عازمِ سفرتھا۔

 ایران کے شاندارسفری تجربے نے بہت حوصلہ بخشا تھا۔ فلائیٹ اک گھنٹا لیٹ تھی۔ زیادہ مسافر زائرین تھے جو گروپ کی شکل میں محوِ سفر تھے۔ وہ کون سے خلا تھے جو حضرت علی،حضرت عباس، حضرت امام حسین  ایسی عظیم ہستیوں اور اُن کی اولادوں کے مزارات کی زیارت سے انسانوں یا مسلمانوں نے بھرنے تھے؟ چھوٹے بچوں کو دیکھیں ،تو ایک دوست کی بات یاد آئی کہ ٹین ایج تک بچوں کو مذہب سے دُور رکھو کہ ہوش سنبھالنے پر وہ خود   آزادانہ فیصلہ لے سکیں کہ کس مذہب سے اپنے وجودکے کون کون سے خلا بھرنے ہیں۔ اپنے وطن میں خالی ہوتی جیبوں کو بھرنے کے لیے بھی کچھ جوان عراق جا رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہاں۳۰۰ ولاز زیرِ تعمیر ہیں اور جن کی خاطر مزدوراور مالی وغیرہ درکار ہیں۔ اچھے پیسوں اور گیارہ ماہ بعد چھٹی کی موٹیویشن اُن کے لیےزاد راہ تھی۔عراقی ایئرلائن کا جہاز کافی پُرانا تھا، مگر وہ منزل پر پہنچا کر ہی ٹلا۔

[UNVERIFIED CONTENT] It is one of the oldest mosques in the Islamic Iraq, for Shiite community in Iraq and the world. And currently held the Friday prayers to follow the Shiite cleric Muqtada al-Sadr. It is located in the city of Kufa, in the province of Najaf, Iraq.

نجفِ اشرف اُترتے ہی احساس ہوا کہ کوفی اب بھی  سیدھےراستوں کو مشکل بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی کام  کرنےکو راضی نہیں۔ مندوب کو ۵۰ ڈالر دے کر  بھی آنکھوں کی سکیننگ  کرانے اور ہوائی اڈے سے نکلنے میںبھی دو گھنٹے لگ گئے۔ ایران  والا  نظم و ضبط  یہاں نہیں تھا، عجمی، عربوں سے بہتر منتظملگے۔ ٹوٹی سڑکوں پر ٹوٹی بسیں دیکھیں ،تو پاکستان کے کسی چھوٹے شہر کا گمان ہوتاتھا۔ امام علی ہسپتال کی پُرشِکوہ عمارت کے نام پر سرکاری ہسپتال کا گمان گزرا ،مگر  یہ گمان نادرست تھا۔ گورے جیسےعیسیٰ اور مریم کے پیروکاروں کے نام پر ہسپتال بناتے ہیں، سُنّی مسلمان  عمر وعثمان و غوث الاعظم کے نام پر مطب کھولتے اور یہاں یہ کام  گویاعلی و حسین کے ذمے ہے۔ میزبان یہاں پاکستانی طالبعلم کی حیثیت سے مقیم تھا۔ نجفِ اشرف کو مدینۃ العلم بھی کہتے ہیں۔جہاں شیعہ اسلام کی تمام رموز سکھائی جاتی ہیں۔ شادی شدہ طلباء کے لیے شاندار گھر،قطار اندر قطار اور کنواروں کے لیے ہوسٹل۔ جن کی  منتظم حکومت نہیں،بل کہ نوّے سالہ ایرانی بزرگ سیّد سیستانی ہیں۔جو خود حرم ِامام علی کے پاس سادہ سے کرائے کے گھر میں مقیم ہیں اور پورے عراق کے  لیےعلم و تبلیغ کا کام چلا رہے۔ سڑکوں پر ہر طرح کی گاڑی موجود ہے۔ ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں سے لے کر نئے ماڈل کی ٹویوٹا، ہونڈااورکورین کِیا تک۔ ٹریفک کا نظام حکومت کی طرح کمزور ہے۔ حکومت صرف نام کی ہے۔ کچھ قبائل ہی نظام کو گھسیٹ رہے ہیں۔ ہر سال کروڑوں زائرین آتے ہیں۔ زرِ مبادلہ نہ جانے کہاں جاتا ہے۔ حرم ِامام علی کے قریبی علاقے کی ہیئت راولپنڈی کی پس ماندہ  آبادی ٹالی مُوری کی سی  لگی۔ مشہد و قم کے حرم اور ارد گرد کے علاقوں کا طلسم یہاں پہنچ کر  جاتا رہا۔ تنگ گلیاں ٹوٹی ہُوئی،درمیان میں نالیاں، سامان رکھ کر پہلے کتابوں کی مارکیٹ دیکھی،جہاں دکاندار رات کو بَتّی بجھاتے ہیں اور بغیر تالہ لگائے گھر چلے جاتے تھے۔ صبح بتی جلائی اور کام شروع!اُن کی کتابیں کوئی نہیں چُراتا۔ اپنے محنت نہ کرنے، صفائی پسند نہ ہونے اور جمود پر یقین رکھنے پر خود ہی عراقیوں نے لطیفہ بنا ڈالا ہے کہ سب کچھ اتنا پرانا ہےکہ  لگتا ہےکسی گلی سے حضرت علی نکل آئیں تووہ حیران پریشان نہ ہوں گے ،کیوں کہ وہاں بظاہر چودہ سو برس  میں کچھ نہیں بدلہ۔ مختلف جنگوں، صدام حکومت ایسی انتظامیہ اور حرم ِامامِ علی کےسستمتولّینکی وجہ سے پہلے امام کا حرم باقیوں کی نسبت مختصر اور سادہ ہے۔ سنہری گنبد بھی ایک طرف سے ہی زیادہ نمایاں ہے۔ اندر صحن میں خطبہ چل رہا تھا۔ نیلے اور پیلے رنگ کی ٹائلیں دیواروں پرلگائی گئی ہیں۔ اندر وہی بےتحاشہ شیشے کا کام اور روشنی بکھیرتے فانوس۔ سنہری دروازوں، شیشوں اور جالیوں کو چومتے، روتے لوگ۔ بچے بھی اُن کی پیروی کر رہے تھے۔ ایک اونٹنی کوفہ سے چلی اور اسکے بیٹھنے پر پہلے روضہ اور پھر شہر نجف بن گیا۔یوں شہر کی عمر ۱۳۰۰ سال کے قریب ہے۔ مشہد شہربھی امام رضا کی شہادت سے معرض ِوجود میں آیا۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے پہلے مذہب کی چاشنی سے شخصیات کے گرد اک طلسم بنایا جاتاہے۔ پھر اُنھیں منظر سے ہٹایاجاتاہے، پھر وہاں زندوں کے شہر بسائے جاتے ہیں۔بعد ازاں وہاں کی ٹھیکے داری مذہبی پیشواؤں کو مل جاتی ہے۔یا باالفاظ، دیگر چھاؤنیاں بناؤ اور اُن کے گرد عوام کو بساؤ۔نہ جانے مشرق میں صنعت، تجارت، سیاحت اور زراعت کے گرد شہر بسنا کیوں بند ہوتے جا رہے ہیں۔مختلف روضوں یا مزاروں کے پاس بیٹھ کر ذہن کی غلام گردشوں میں کبھی بچپن کی اسلامیات  کی وڈیوچلنے لگتی ہے تو کبھی مذہبی جنون سے تباہ آج کی دنیا کی فلمیں جلوہ گر ہورہی ہوتی ہیں۔

It is one of the oldest mosques in the Islamic Iraq, for Shiite community in Iraq and the world. And currently held the Friday prayers to follow the Shiite cleric Muqtada al-Sadr. It is located in the city of Kufa, in the province of Najaf, Iraq.

صبح سویرے مدائن روانگی تھی۔ نجف سے نکلے تو کھجوروں کے باغ اور کوڑے کے ڈھیر مدائن تک ساتھ رہے۔ ٹیکسی ڈرائیور تھوڑا بےتکلف تھا اور پاکستانیوں کو دُنیا کی احسن ترین قوم قرار دے رہا تھا۔ ہلہ شہر کے ساتھ بابل کے کھنڈرات کو دیکھنے  کے لیے چھوڑا۔ ہلہ شہر بھی جہلم کے حجم اورمعیار کا لگا۔ مین شاہ راہ پر ڈاکٹروں کے پلازوں کی بہتات تھی۔ شہروں کے درمیان معمولی نوعیت کے ریسٹ ایریاز، سرسبز گاؤں اور گھر ساتھ ساتھ تھے۔ لینڈسکیپ اور صفائی  ہمارےوطنِ عزیز  جیسی تھی۔ مدائن کے  لیے موڑ مڑے تو یوں لگا  جیسےپنجاب کاکوئی گاؤں آگیا۔ سعودیوں کی نظر شاید اسی ہریالی  پر رہتی ہے۔ ٹنل فارمنگ بھی چل رہی تھی۔ باغ، کھیت، وِلج ہاؤس اور جانوروں کے باڑے نمایاں نظر آئے۔ لوہے کا پل اور پھر مخدوش قسم کی پولیس چیک پوسٹ۔ مدائن کو حضرت عمر فاروقکے زمانے سے بڑی اہمیت تھی۔حضرت سلمان فارسی یہاں کے گورنر تھے۔جو ایک مسجد کے پہلو میں دفن ہیں۔ آپ میرے پسندیدہ شہر اصفہان سے چلے تھے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر مدینہ پہنچے۔ آگ سےدینِ عیسیؑ اور پھر خُدائے محمّدؐ تک کا سفر کیا۔ خندق کی جنگ کے ہیروبنے۔ اور پھر مدائن کی حکومت مل گئی۔ یہ بھی روایت ہے کہ  آپ نےقران کو فارسی میں ڈھال کر اہل ِعجم پر  احسانِ عظیم کیا۔ دنیا سے واپسی کا سفر شروع ہوا تو روانگی  حضرت علی کے ہاتھوں  میں ہُوئی۔ غسل بھی امیرالمومنین نے دیااور نمازِجنازہ بھیاُنھوں نے پڑھائی۔ اس غسل اور جنازے کی جگہ پر آج بھی لوگ نفل پڑھتے ہیں۔ہر جگہ حدیث درج ہے کہ سلمان اہل بیت میں سے ہیں۔ ایک دانا و بینا انسان کے پاس بیٹھ کر مذہبی کرامات سے متعلقسوچا کہ امام مہدی خواب میں آکر میلوں پر پھیلی مسجد بنوا سکتے ہیں تو سلمان فارسی کسی کے خواب میں آکر کشمیر و فلسطین کے مسئلے کا حل کیوں نہیں بتا سکتے؟ سلمان فارسی کی بغل میں رازدار رسول حزیفہ بن یمانی دفن ہیں۔ جومنافقوں کی سکریننگ میں ماہر تھے۔ جس کے جنازے میں حزیفہ  نہیں گئے،اُس کے جنازے میںحضرت عمرفاروق بھی نہیں گئے۔ سیلاب کے باعث یہاں آپ کی دوبارہ تدفین ہوئی۔ اُن کے پیچھے امام باقر کی اولاد، امام الطاہر۔ اُن کے ساتھ عبداللہ بن جابر، قبروں میں لوگ پیسوں کے ساتھ ٹافیاں، سگریٹ اور لائیٹر بھی رکھ جاتے ہیں۔ پیسہ تو چلو حکومت وقت کے کام آجاتا، باقی مادی اشیا کا مصرف اور بہت سی چیزوں کی طرح سمجھ سے بالا تررہا۔ ساتھ ہی گیارھویں امام کی تعمیر شدہ مسجد ایستادہ ہے۔

مزاروں کے احاطے کے پیچھے اسلام سے پہلے کی،بل کہ بہت پہلے کی تاریخ ،کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ ساسانیوں کا بنایا طاقِ کسریٰ بھی ہے۔ کسی زمانے میں  یہ پرشکوہ عمارت ہوگی۔ درمیان میں عظیمالشان گول آرچ اور دونوں اطراف مستطیل بلاک نما آرچز،عمارت کی شان کو وقت، موسم اور جنگوں نے خراب کردیا ہے۔ گہری دراڑوں اور بھونکتے کُتّوں نے ماحول میں وہ ہیبت طاری رکھی ہے کہ ساسانی بھی آج آئیں تو ڈر جائیں۔چوں کہ اقوام ِمتحدہ کی ہیریٹج سائیٹ  ہے،سو کام چل رہاہے۔ گارڈ کو ۱۰۰۰۰ریال رشوت دےکر کھنڈر کھنگالا۔

کچھ معاملات میں عراق اب بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہا ہے۔ انگریزی زبان نصاب کا حصّہ نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو تو نصاب کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لوگ سکول جانے کو تیار نہیں ہیں۔ عربی تک نہیں پڑھ سکتے۔ سو،قران پڑھنے سے بھی نا آشناہیں اور جو پڑھ رہے اُنکا جدید لباس پہننا، تیراکی کرنا اوراپنی  زندگی جینا معیوب گردانا جاتاہے۔ زبان بھی عامیانہ ہے، اصل عربی سے کوسوں دُور۔ پھر بھی ملک چل رہا ہے، کئی مرتبہ تباہ ہو کر بھی چل رہا ہے۔ بجلی کوڑیوں کے بھاؤ، پٹرول بھی سستا۔ہمارے وطنِ عزیز میں یہی دو چیزیں جان کا وبال بنی ہوئی ہیں، بل کہ  ان کی عدم دست یابی سےہمارا وجود خطرے میں ہے۔

بغداد سے گزر کر سمارہ کی راہ لی۔ اوور ہیڈ پلوں پر کام جاری تھا۔ کراچی اور ڈھاکا کا سا ماحول لگا۔ شاید ترقی سے دُور ممالک کی وائب سانجھی ہوتی ہیں۔ سمارہ میں دو امام دفن اور آخری امام وہاں سے رُوپوش ہُوئے تھے،جو دوبارہ آکر دجال کو مارنے،جنابِ عیسیٰؑ کو خوش آمدیدکہنے اور قیامت کی خبر دینے  آئیں گے۔ مذہبی قصے کتنی بڑی موٹیویشن  ہوتے ہیں ،ذلتوں اور ظلمتوں کے مارے لوگوں کے واسطے۔ سمارہ کا قریبًا تمام راستہ ٹُوٹا ہُوا تھا۔ سڑک زیرِ تعمیر ہے۔ کنارے پر دونوں طرف جابجا انگوروں کے باغ ہیں۔ آج کے سامرہ شہر کو ایک طرف چھوڑ کر کچھ آگے جاکر امامین کا حرم۔ باہر سے تو حالت پتلی ہے۔ گیٹ سے کوسٹر میں بیٹھ کر حرم کے صحن میں اترے۔حضرت علی کے حرم کی مانندیہاں بھی سنہری گنبدہے۔ صحن سے ملحقہ گھروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ شیشے تک ٹوٹے ہُوئے تھے۔ شاید اُس بمباری سے ٹوٹے ہوں ،جو اِسی دین کے ماننے والوں کے ایک اور فرقے  نے ۲۰۰۶ اور ۲۰۰۷ میں کی تھی۔ اس کے بعد عراق میں فرقہواریت کی لہر تیز ہوگئی تھی۔ ۲۰۱۶ تک متواتر حملے ہُوئے۔گویا زیرِ زمین امام بھیمقتدر ایوانوں کے لیے خطرہ ہیں۔ کسی کی عبادتگاہ یا مقدّس جگہ کو تباہ کرکے ہی ظالموں کی تسلی ہوتی ہے۔ پورا معاشرہ جو مذہب کے ٹانک پر رینگ رہا ہوتا ہے، ایک دَم بلبلا اٹھتا ہے۔ دسویں اور گیارہویں امام، ایک کی زوجہ، ایک کی بہن۔ سب ایک چھت تلےمدفون ہیں۔یہاں  شیشے کا کام، سونے کی چھت، چاندی کی جالیاں اور روتے ہُوئے مُرادیں مانگتے لوگ یاد رہیں گے۔ قدیم مقتدرہ نے اماموں اور اہل بیت کو مارنے، زہر دینے، اورغیر متعلق رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی کڑی میں گیارھویں امام سامرہ میں نظربند تھے۔اُنھوں نے پانچ سال تک اولاد کا وجود مخفی رکھا۔پھر عتابِ شاہی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جنازہ پڑھاتا امام مہدی بھی عباسیوں کو وارے میں نہ تھا۔ ایک اور حملہ اور تہہ خانے سے امام غائب ہو گئے۔ اِس تہہ خانے میں صدیاں گزرنے کے بعد بھی  طاقت اور ہوس کی بو ہے۔ یا تو عباسی دَور سے ہیدر و دیوار میں بسی ہُوئی ہے، یاداعش اور صدام کی یادگار ہے۔عباسیوں نے کچھ کام اچھے بھی کیے۔مقتدر ایوان ویسے بھی مساجد، مزار اور یادگارِ شہدا بنا کر اپنے اصل کارنامے چھپا لیا کرتے ہیں۔ حرم سے عباسیوں کی بنائی گرینڈ مسجد کا راستہ مڈل کلاس گھروں پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی نما گھر میں بھی اے سی، لش پَش گاڑی اور کیمرے موجود تھے۔ مسلسل بمباری کے بعد فوج جگہ جگہ تعینات نظر آتی ہے۔ گرینڈ مسجد اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اِسی طرز پر بعد میں مصر کی مساجد سمیت دُنیا میں کئیمساجد تعمیر ہُوئیں۔ اِس مسجد کاسپائیرل ٹاور آج بھی منفرد خیال  کیا جاتاہے۔ یوں لگتا مٹیکیقوی ہیکل آئس کریم دھری ہو ۔ مسجد کا صحن اور باقیات کھنڈر کی صورت میں موجودہیں۔ شاید اب عراقی عباسیوں کی یادکو بھی آباد نہیں رکھنا چاہتے۔

کاظمین میں امام موسیٰ کاظم دفن ہیں۔ چار ستاروں والے ہوٹل میں سامان رکھ کر امام کے مزارکی زیارت کا معاملہبعدکے لیے اُٹھا رکھا اور بغداد میں دریائے دجلہ پر کروز ڈنرکے واسطے سواری لی۔ کاظمین کے بازار میں دکتوروں کی بہتات تھی۔ یہاں سرکاری ہسپتال نہیں ہوتے۔ کچھ حرم اور علماء چلاتے تھے،باقی سب پرائی وِٹ ہیں۔بازار سے گزرے تو دل کو حوصلہ ہوا کہ بغداد اب بھی ایک پوش شہرہے۔ جودجلہ کے کنارے اجڑ اجڑ کر بستا رہا ہے اور ہر مرتبہ خوب ہی بستا رہا ہے۔جدید مال، پوش ماحول والے مہنگے کیفے اور سب کچھ جو اسلام آباد اور کراچی میں ہو سکتاہے۔ ہائی رائز عمارات اور خاص کر دجلہ کنارے بینک کی بارُعب عمارت۔ امریکی  سفارت خانےکے ساتھ پل جو امریکی بمباری سے تباہ ہوکر پھر بنا، جدید اور شان دار ہے۔ مطعم سفینہپر مہنگا اور مزےدار بوفے کرکے دجلہ کنارے تاریخ کو محسوس کرنا چاہا۔ ترکی سے آتا یہ دریا صدیوں سے اپنے ارد گرد کیا کچھ ہوتا نہیں دیکھتا رہا۔ ہولاگو خان نے  دجلہ کے پانی کولال اور سیاہ کیا، وقت گزرتا گیا، امریکی بمباری بھی اسے گدلا کرتی رہی۔ اپنے گرد بسے شہر کو بار بار اس دریا نے زندہ ہونے اور پھلنے پھولنے میں مدد دی۔ کتنا شوق تھا دجلہ و فرات کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کا- آج  وہ شوق پورا ہُوا۔ دُنیا کے حالات جو اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھے اور سُنے دوبارہ یاد آنے لگے۔ پھر ماضی قریب اور بعیدسب کچھ ملا جُلاتھا۔ یہ شہر بہت ہی عظیم ہے، سخت  جان ہےِ، مبارک ہے، معجزاتی ہے یا سازشی ہے؟ بارہا فلک کے  ہاتھوں لُٹنے کے بعد،ویران ہونے کے باوجود ہمارے  آباد شہروں سے بہتر ہے۔

امام موسیٰ کاظم کے  مزار کے علاقے میں موبائل پر پابندی ہے۔ ہر حرم کے اپنے ضوابط ہیں۔ اُن کے بیٹے کے حرم کے گرد تو ایرانیوں نے تو اپنے یہاں پورا شہر بسا ڈالا ہے۔ اُس  شان و سطوت  کا تو عشرِ عشیر بھی عراق میں نظر نہیں آتا۔ایک برطانوی ادارہ اماموں کی آرامگاہوں کی تزئین میں مصروف ہے۔ پہلے احاطے کافنِ تعمیر باقی مزاروں سے مختلف ہے۔ سفید رنگ کا بےتحاشہ استعمال، بھورے رنگ  کی آمیزش کے ساتھ اچھا لگا۔ باہر شیعہ عالم آرام فرماہیں اور اندر دادا اور پوتا آسودہ ء خاک ہیں۔امام موسیٰ کاظم کے والد تو تمام عمر درس و تدریس میں لگے رہے اور امام موسیٰ کاظم کو بھی اِسی رستے پر لگایا، مگر ہارون رشید کو شک تھا کہ یہ والد کی طرح نچلے نہیں بیٹھیں گے ،سو بغداد میں قید اور پھر موت اُن کا مقدر بنی۔ اللہ جانے طبعی موت تھی یا سلو پوائزننگ دی گئی؟آخری نبیؐ کے دین کو اگر اماموں کے مقلّد اپنی بہت ہی ذاتی تعبیر و تشریح نہ دیتے، تومسلمانوں میں اِس قدرفرقے بازی نہ ہوتی۔

انسانی معاشروں کورُوحانی خلا بھرنے کے شایدمتعدّد بہتر طریقے مل گئے ہیں۔بعض مذہبی عبادت خانےخالی ہوگئے ہیں۔ ہمارے یہاں ابھی  بھوک، دہشت، خوف،جنگوں کے خدشات اور بے یقینی عام ہے۔ سو مسجدیں اور مزار بجا طورپرجائے عافیتقرارپاتے ہیں۔ پھربدنیّت حکمرانوں کو بھی یہ عمل  وارا کھاتاہے کہ لوگ محنت اور تفکرکی بجائے  مبہم توکّل  اور دُعاکو زندگی کامرکزی نکتہ بنا لیں،سٹیٹس کو والامعاملہ  برقرار رہتاہے۔

مشہور ترین ولی اللہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کےمزار پر جانے کا موقع ملا۔آپ صُوفی، عالِم  اورآلِ رسول ؐ ہیں۔ وسیع و عریض مسجد اور اُس کےاندرمزارمبارک ہے۔آپ نے بغداد کو علم و عمل سے روشن کیا اور یہیں سو رہے۔برِّ عظیم میں آپ سے متعلق بے پناہ شاعری ہُوئی ہے۔ نثر میں کتب لکھی گئی ہیں۔آپ کو اولیا کا کا سردار مانا جاتا ہے۔غوث الاعظم بھی کہا جاتاہے۔آپ کا اسلامی فکرکے ارتقا   اور کردارسازی میں بڑامقام ہے۔

اندرونِ شہر سے ہُوتے ہوئے عراقی میوزیم کی راہ لی۔ اندرونِ بغداد، راول پنڈی  کی قدیم اندرونی  آبادیوں سے مختلف نہیں۔ تنگ گلیاں، لٹکتی تاریں اور جنگوں کے مارے لوگ، مگر زندہ اور متحرک!میوزیم بند تھا سو رکشے والے نے کہا کہ قریب متنبّی سٹریٹ ہے۔ وہاں بھی سیّاح جاتے ہیں۔مُجھے میڈرڈ اور ایمسٹرڈیم کی سٹریٹ مارکٹس یاد آگئیں۔ اولڈ بکس اور سٹیشنری کی بہتات تھی۔ کچھ لوکل سوغاتیں بھی تھیں۔ نہایت خوش کُن  بات یہ ہے کہ فیودردستوئفسکی کا عظیم ناول”جرم و سزا”عربی میں ہر دکان پر موجود تھا۔ ایک رکشا لے کر معروفِ کرخی کےمزارپرحاضری دی۔ مزار کی چھت پر دونوں اطراف کشتی نما ابھارہیں۔ اندر مسجد اور کونے کے صوفی بزرگ آسودہء خاک ہیں۔ قریب ہی ملکہ زبیدہ دفن ہیں۔ ہارون الرشید کی پہلی اورمحبوب بیوی۔ محبوب ہونے کا قیاس اِس لیے کیا ہے کہ  بہت سے مشکل کام اِس بی بی نے ڈنکے کی چوٹ پر کرائے تھے۔ عباسیوں کے بائیں  ہاتھ چاہےسادات اور اُن کے حُب داروں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں، دائیں ہاتھسے انھوں  نے کمال کے کام  بھی کیے۔ ملکہ نے زمزم کا کنواں دوبارہ کھدوایا۔ عرفات میں پانی فراہم کیا اور کوفہ سے مکہ تک‏ صاف اور محفوظ راستہ بنوایا۔ مسلسل پانی کی فراوانی کو یقینی بنایا۔ اِس  منصوبےپر بہت لاگت آئی ہو گی۔نہ جانے  کتنا مالِ غنیمت  خرچ ہُوا ہوگا۔ الف لیلوی قصوں میں مذکور طاقتور ملکہاب  جھونپڑی نما گھروں کے درمیان کہیں سو رہی ہے۔ ننگ دھڑنگ بچے قبر کے محافظ و مجاور۔ کبھی یہ کتنی پرشکوہ عمارت ہوتی ہوگی ۔بے شک انسان خسارے میں ہے۔لمبا سپائرل مینار۔ بیچ میں گول جھریاں جس میں سے بہت سی بندہو چکی ہیں، کیوں کہ پرندوں نے اُن میں گھونسلے بنا ڈالے ہیں۔ شاید مسلک مختلف ہونے کی وجہ سے اُسکی قبر کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ مَیں تنگ اور گرد آلود سیڑھیوں سے ہوکر مزار کی نیم چھتی تک پہنچا،ارد گرد کی غربت کو بہترانداز میں  جانچنے کی کوشش کی۔ سامنے ریل وے کی پٹری پر ایک ٹرین جو حکومت کی بے توجہی کا شکار تھی، رینگ رہی تھی۔بے توجہی کے باعث ریلیں پتہ نہیں کہاں کہاں رینگ رہی ہیں۔ اگلا پڑاؤ معروف صوفی جنید بغدادی کا مزار تھا۔جو  پڑھے لکھے صوفیا کے سلسلے میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ نے سات سال کی عمر میں حج کیا، علمی اور روحانی مدارج طے کیے۔پھر گوتم بدھ کی مانند دنیا تیاگ دی۔ پھر خواب میں نبی کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی،تبلیغ کا روح پرور کام کیا۔ مذہبی کہانیوں میں کتنا سادہ رومان بھرا ہوتا ہے۔ مزار پرایک سُنی مولانا کہنے لگے کہ پچھلے سال مَیں پاکستان گیاتھا، کراچی  میں خطبہ دیا،تو چار ہندو مسلمان ہو گئے تھے۔

ایک اور معروف بزرگ بہلول دانا بھی قریبی قبرستان میں دفن ہیں۔میرا قیاس تھا کہ آپ چوں کہ امام موسیٰ کاظم کے قریب تھے ، سو عراق کی  شیعہ برادری اُنھیں اپنائے ہوئے ہو گی اور اُن کی شہرت کے شایان شان  مزار ہوگا، مگر ایسا نہیں تھا۔

 ابھی کچھ ہفتے قبل وطنِ عزیز میں بھٹو ریفرنس کیس کا فیصلہ آیا۔ تاریخ کئی دفعہ یوں اپنے آپ کودُہراتی ہے جیسے کوئی فلم ریوائنڈ ہورہی ہو۔بعض اوقات بہت کچھ یاد کراتی ہے۔ ہارون الرشید اور ضیا ء الحق  بعض کاموں میں مشابہ تھے۔ بہلول بنیادی طورپر حق پرست تھے۔خُدا معلوم  حواس بجا نہ تھے یا سوچا سمجھا فیصلہ تھا، جو حاکمِ وقت  کے مخالف ہو گئے یا پھرکسی امام کے کہنے پرخُودپرایک جنون طاری کر لیا،سواُن کی گردن بچ گئی۔بعض اوقات ذہین ترین لوگ اپنی جان نہیں بچا پاتے اور سادہ لوح ہنستے مسکراتے بدترین خطرات میں سے نکل جاتے ہیں۔بہلول تاریخ اور فکشن کا دل چسپ کردار ہیں۔ جو امیرِ جج  سے غریب مجذوب  تک کئی کردار نبھاتے نظر آتے ہیں۔ممکن ہے تحقیق سے اُن کے بارے میں مزید حقائق سامنے آئیں۔کہا جاتاہے  ہمارے پنجاب سے  گرونانک بھی  وہاں پہنچے تھے اور اُنھوں نے  بہلول دانا  کے مزار کے قریب گردوارا بنایا تھا۔جو گُردوارے یا مندر آج کی عرب دُنیا میں بن رہے ہیں، اُن کے لیے کسی بہلول دانا یا گُرو نانک کی ضرورت نہیں ہوتی۔بغداد نہ جانے کتنی بار تباہ و برباد ہواہے اور کتنی بار ابھی مزید ہوگا۔ سو بہلول اور نانک کی نشانیاں فرقہ پرستی میں کہیں گم ہو کررہ گئی ہیں۔ قبرستان کے باہر سال ہا سال پرانی ریلوے لائن، جس کی کڑیاں جنگِ عظیم دوم سے جا ملتی ہیں۔ اپنی حالتِ زار  پر نوحہ کناں تھیں۔ظاہر ہے اُسے دیکھ کر وطنِ عزیز کی یاد آئی۔ یہاں سے  مَیں امام  ابوحنیفہ کےمزارپر حاضری کے لیے روانہ ہُوا۔ ہر شاہراہ پر اچھے پرائی وِٹ ہسپتال دیکھے تھے، آج سرکاری  ہسپتال دیکھنے کا موقع ملا۔ باہر سے ہسپتال کو دیکھکر یوں لگا جیسے اب بھی بغداد میں ہر روز میزائل گرتے ہیں۔

دُنیا میں بسنے والے بیشتر سُنی مسلمان امام ِ اعظم ابو حنیفہ کے پیروکار ہیں۔آج کے نوجوان مسلمانوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ  امام ابو حنیفہ درحقیقت امام جعفر صادق کے شاگرد تھے۔آپ کے مزار کے ساتھ مسجد اور اونچا سا کلاک ٹاورہے۔ سُنّی زیارتوں کے خدام عمومًا مرکزی زیارت کی کنڈی لگا کر رکھتے ہیں اورپھر بخشش کی اُمید  بھی لگائی ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہ بہت بڑے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ تابعی بھی تھے۔آپ کی فقہی مہارت بے شبہ غیرمعمولی تھی۔جب  چیف جسٹس بننے کی پیشکش ٹھکرائی، تو زندان مقدّر ٹھہرا۔ زندان میں بھی علم کی دولت بانٹتے رہے۔ جابر سلطان کے خلاف عوام کو اُکسانے اور ہتھیار اٹھانے کا فتویٰ دینے پرآپ کو زہر دیا گیا۔ بھوک پیاس میں جان دی ۔کروڑوں پیروکار اُنھیں بھول نہیں سکتے۔  دو دن  اہلِ تشیع سے منسوب  زیارات کے بعدایک دِن اہلِ تسنّن کی یادگاریں دیکھیں۔جدید بغداد میں پام  آف بغداد نامی جگہ پر کھانا کھایا۔ مہنگے ہوٹل اور کیفے۔ اسلام آباد جیسا ایلیٹ ماحول۔ انگریزی بولنے والا سٹاف۔ اندر ہی تھیٹر بھی، جہاں میوزک کانسرٹ بھی ہوتے ہیں۔ شہر بھی سخت جان اور لوگ بھی۔ مر کر ہر بار پھر جی اُٹھنے والے!

سانحہ ءکربلا، آخری نبیﷺ کے  دَور کے بعد  کا سب سے پُر اثر اور معنی خیز واقعہ ہے۔جس سے کسی مسلمان کو مَفر نہیں۔یہ سانحہ آج بھی تصنیف تالیف کا اہم ترین موضوع ہے۔ کربلا کا میدان اہلِ بیت کا خون پینے کے بعدصدیوں کے اتار چڑھاؤ دیکھ کراب جدید شہر بن چکا ہے۔  یونیورسٹیاں، ہوٹل، ہسپتال؛ حرم کے گردایک  دُنیا آباد ہے۔ تاہم حرّیت اور اصولی مؤقّف کی بحث آج بھی انسانی ضمیر کے لیے ایک بہت بڑاسوال ہے، اگر کوئی سوچنا چاہے تو!

پہلے حضرت عباس علمدار کےمزارپر گیا۔ اپریل کے مہینے میں مُجھےبار بار پیاس لگ رہی تھی۔اُس وقت  کا تصوّرہی دِل ہلا دینے والا ہے، جب نبی کریم ﷺکے خاندان اور چاہنے والوں پرقیامتیں ٹوٹ رہی تھیں۔ مزار کے کمرے  سےباہر چھت سے ایک مشکیزہ لٹکا ہوا ہے۔جسے ایک علامتی پیغام سمجھنا چاہیے۔حضرتِ عباس نے عورتوں اور بچوں کی تکلیف دُور کرنے کی خاطر پہلے  بازو نثارکیے اور پھر جان دے دی۔ گو یزید کے لشکر نے کوئی کسر چھوڑی نہیں تھی، مگربعد کے زمانوں میں بھی وہاں ستم ڈھائے جاتے رہے۔ صدام کے لشکر نے بھی بمباری کی۔خُود کُش حملے بھی کیے گئے ہیں۔مسلمانوں کو مسلمانوں سے خطرہ ہے۔اکسٹھ ہجری میں حضرت عباس ستّر بہتّر لوگوں کے لیے پانی کا مشکیزہ بھرنا چاہتے تھے۔آج  کروڑوں  مسلمان پیاسے اور بے آسرا ہیں۔ بین الحرمین سے گزر کر امام حسین کے مزارِ اقدس تک پہنچا۔ بین الحرمین میں جا بجا پنکھے لگے ہوئے ہیں اور زائرین چادریں بچھائے بیٹھے ہُوئے تھے،کھا، پی رہے تھے۔ بعض سو رہے تھے۔ نبی کے نورِ عین، مظلوم حسین پاس ہی آسودہء خاک ہیں۔ یہ کوئی فرقہ ورانہ قصّہ نہیں۔ انسانیت کا المیہ ہے۔نبوی پیغام اور ذاتی ہوس کا اختلاف تھا۔طاقت بدمست اور بے اصول ہو تواُسے نبی نظر آتے ہیں نہ نبیوں کا پیغام! حُسنِ اتّفاق سے بندہ عین اُسی جگہ  کھڑاتھا، جہاں مذہب یا اصول   پربظاہر طاقت غالب آگئی تھی۔ خیام والی جگہ اب زائرین کی سہولت کے لیےلش پش ہے، قالین، فانوس، اے سی بہت کچھ فراہم ہو چکا ہے۔حقیقی اُسوہء حسینی عالمِ اسلام میں کہیں نظر نہ آئے، تو اُس کے ذمے دارخُود مسلمان ہیں۔

ایک ہوٹل میں ایک شیعہ ذاکر و عالم سے ملاقات ہوگئی۔ آپ لال شہباز قلندرؒ کے تین  عرسوں میں حاضری کے بعدوہاں کے ماحول سے بہت نالاں نظر آئے۔آپ اُن شیعہ علما سے بھی نالاں نظر آئے جو لال شہباز قلندرؒ اور صوفیانہ مواد سے شیعہ فکر کو آلودہ کررہے ہیں۔ اُن کے ایک مُرید نے اپنی باتوں میں حضرت حسن بصریؒ کو بھی رگڑ دیا کہ وہ وسوسوں کی بیماری کا شکار تھے اور وضو کے لیے بےتحاشا پانی ضائع کرنے پرحضرت علی نے حضرت بصری کی سرزنش کی تھی۔یہ لوگ  صوفیانہسلسلے شروع کرنے پر نالاں تھے،بندہ میڈیکل اور نفسیات کا طالب علم ہونے کے ناطےسوچ رہاتھا کہ اُس زمانے میں بھی او-سی-ڈٰی (وسوسوں کی بیماری) کا سُراغ ملتا ہے۔

رات کو جدید کربلا دیکھا۔ صدام اور داعش کے واروں سے یہ سرزمین زخمی ضرور ہوئی تھی ،مگربے حوصلہ نہیں ہُوئی۔ یونیورسٹیاں، شاپنگ مال، بیش قیمت گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر زندہ  دلی سے زندگی گُزارتے عراقی مسلمان نظر آرہے تھے۔ رات کا کھانا ایک جدید مال کی فوڈ کورٹ میں کھایا ،جو مقامی لوگوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ ہوائی اڈّا بھی زیر ِتعمیر ہے۔ امام رضا کے حرم کی طرح یہ حرم بھی ایک طرح سے معاشی خود کفالت کے رستے پر گام زن ہے۔

اگلے روز صبح پہلا پڑاؤ جنابِ حُر کے مزارکی طرف تھا۔حضرتِ حُر، ایک  دل چسپ مثال ہیں یزید اور اسٹیبلشمنٹ کے نمایندوں کے لیے، کہ راستہ بدلہ جا سکتا، ضمیر کی آواز پر لبیک کہا جاسکتا۔ دل کی آواز اور تلوار کے رُخ کو ایک سمت میں کیا جاسکتاہے،اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ توبہ کے دروازے بند ہو جائیں۔ مشکل صورتِ حال میں حُر بنناہرگز آسان نہیں ہوتا۔سانحہ ء کربلا کا ایک بہت اہم کردار امام حسین کی بہن حضرت زینب بھی ہیں۔آپ نے مشکل ترین حالات میں خاندانِ نبوت کی عظیم الشان فرد ہونےکا حق خوب ادا کیا۔ آپ کا مزار دمشق ،شام میں ہے۔آپ کی استقامت اورخطبےمسلمان خواتین کے لیے ہی نہیں ، انسانیت کے لیے ایک نمونہ ہیں۔ کربلامیں آپ کی ذاتِ گرامی کا خیال آنا برمحل اور ضروری ہے۔

عراق میں اسلام اورسانحہ ء کربلا سے پہلے کی تاریخ کے آثار بھی موجود ہیں۔یہاں کے تاریخی مواد میں  کسی نہ کسی پیغمبر کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ بابل و نینوا کا مرکب بچپن میں کسی شعر میں پڑھا تھا۔ نینوا کی سَیرتومیرے اِس دَورے کا حصّہ نہیں تھی، بابلکے آثار دیکھنے کا موقع ملا۔ کربلا سے ایک  گھنٹے کی مسافت پر،حضرت عیسیٰؑ کے ظہور سے بھی سینکڑوں سال پہلے کی تہذیب کا گہوارابابل  آج بھی فکرانگیزہے۔ عراقی انتظامیہ نے اِس عظیم تاریخی مقام کو سیّاحوں کے لیے بہتر حالت  میں رکھاہُواہے۔ ویسے بھی یہاں جذبات سے سرشار مسلمان  کم اور عقل و تاریخ میں دل چسپی رکھنے والےغیرمسلم زیادہ آتے ہیں۔ بابل کے دروازے سے لے کر، اُس کے عقب میں صدام  حسین کے محل سے منسلک تفریح گاہ اور فرات ندی تک ایک پورا کاعمارتی سلسلہ ہے۔ اُس دِن بادلوں نے بابل کی سیر کو آسان بنادیاتھا۔ انٹرنس پر سنتری نے پوچھا تھاکس ملک سے تعلق  ہے؟میرےواضح طورپر پاکستان بتانے پر بھی ۳۰۰۰ دینار کا ٹکٹ دیا جو واپسی پر ہمارے گلے کی ہڈی بنا۔ نیلے رنگ کے علامتی گیٹ کے بعد مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کا سلسلہ شروع۔ عراق اور گردو نواح کا نقشہ اک دیوار پر ثبت تھا اور باقیوں پر اُس دَور کے لوگوں اور فوجیوں کی شبیہیں تھیں۔ سیدھی دیواریں۔ کمرے اور ہال نما جگہوں کی نشانیاں،مگر بغیر چھتوں کے، اینٹیں اور سٹرکچرمُجھے ہر گز صدیوں پرانا نہیں لگا۔ شاید آثار کے اوپر دوبارہ تعمیرکیگئی ہے۔ ایک طرف راہداریاں اور چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ شاید غرباء کا علاقہ رہا ہو۔ مُجھےاپنا موہن جوداڑو یاد آگیا۔ویسے وادیِ سندھ کی تہذیب اور بابل کی تہذیب میں گہرا رشتہ بھی تو ہے۔بابل کی تاریخ کے کئی ادوار انسانی تاریخ میں اہم رہےہیں۔حضرت نوحؑ کے پڑپوتے سے لےکر اِسلامی دَور تک اِس سرزمین نے کئی مدوجزر دیکھے ہیں۔ ایران والے ساسانی بھائی بھی حکم چلاتےرہے۔ داراؤں نےبھی یہاں حکومت کی۔ رہے نام اللہ کا!ابھی  بہت کچھ زیر زمین، جدید سائنس کا منتظرہے۔کوئی گورا ہی آکر کھدائی کرے تو کرے۔مقامی یہ کام کرنے سے رہے، چاہے عراقی ہوں یا پاکستانی۔یہ اور طرح کی زیرِ زمین سرگرمیاں کرتے ہیں، تہذیب شناسی اِن کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے سماج  سُدھارکے نام نہاد ٹھیکےدار پورے عراق  کوبابل بنانے کے دَرپے ہیں، مگر یہ قوم سب  کچھ جھیل کر بھی گھٹنے نہیں ٹیک رہی۔اللہ اِن کا حامی ناصرہو! اینٹوں اور مٹی کی دیواروں کے ایک طرف ہزاروں سال پرانا شیر بھی موجود ہے۔جِسے کھدائی کے بعد ملے ہوئے بھی سو سال سے اوپر کا عرصہ ہوچلا۔یہ شیر ریت، بجری اور نہ جانے کون سے عناصر سے بنا ہُوا تھا۔ وقت اور انسان اِس کا شکار نہیں کر پائے۔ مٹی کی ٹھیکریاں اورکھنڈرات، معدوم ہورہے ہیں۔ اُن کے بارے میں سیّاحوں اور طالب علموں کو ضروری معلومات  دینے اورنادر آثار کو بچانے کے اقدامات مفقودہیں۔عراقی حکومت صرف  مذہبی آثارپر پیسے لگانے اور کمانے کا سوچتی ہے۔ مستقبل میں شاید کبھی کوئی وسیعالنظرانتظامیہ  آئے اورعراقی  تاریخ کا معروضی دفاع کرے۔

بابل کے کھنڈرات کے پچھواڑے میں ایک تفریح گاہ اور صدام حسین کا محل ہے۔ کھنڈرات کے پیچھے تاروں کو اوپر نیچے کرکے لوگ جا رہے تھے، بندہ اُدھر نہیں گیا،گاڑی پر سیدھے راستے کواختیارکیا۔ تفریح گاہ کی پارکنگ سے پیدل آگے جاناپڑا۔ محل کی چڑھائی شروع کی۔آسان راستہ تویہ  صدام کے واسطے ہوگا، جہاں وہ اُس زمانے کی کالی ویگو میں سوار ہوکرمحل میں داخل ہوتا ہوگا۔  عوام کے واسطے تو چڑھائی ہی تھی۔ اوپر پہنچے تو قدموں تلے زمانہ نہیں، کئی زمانے تھے۔ ایک طرف صدیوں پرانی تہذیب کے آثار تو دوسری طرف ماضی قریب کامقامی ناخدا ،جو اس سیّارے کے سیاسی خداؤں کا نمایندہ تھا۔ صدام کا محل عبرت کا نشان ہے۔ عراقی حکومت کی فلاسفی لائقِ تحسین ہے۔ عبرت کے لیے بھی  میوزیم بنائے جا سکتے ہیں۔ بنگلا دیش کا وار میوزیم یاد کرنے میں کیا ہرج ہے۔ایسی  زبردست عمارت میں کوئی ہوٹل یا سرکاری دفتر کھولا جاسکتاہے، مگرنہیں، عراقیوں نے اِسے کھلا چھوڑا ہواہے عوام اور سیّاحوں کےلیے۔بس ایک کھلی، بے یارو مددگار عمارت ہے، بغیر کسی تزئین یا مرمّت کے۔  جہاں مرضی تھوکیے۔ گند ڈالیے،کوئی مضائقہ نہیں۔ آخرکو عبرت گاہ جو ٹھہری۔مَن چلے نوجوانوں نے اپنا موبائل نمبر اور انسٹا آئیڈی  تک وہاں بعض جگہوں پرلکھ  دی تھی، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔عمارت کی اُوپر کی منزل اور چھت تک رسائی نہیں تھی۔ محل کے عقب میں  نہرِ فرات بہہ رہی تھی۔ شفّاف اور رواں!اِس تفریح گاہ میں واٹر سپورٹس  کے لیے کشتیاں بھی دست یابتھیں۔ کیا خوب جگہ چُنی تھی صدام حسین نے۔ آگے تاریخ ،پیچھے بہتا پانی اور درمیان میں مختلف جنگی منصوبے نافذ کرتا صدام۔افسوس ایک پورا خطہ متاثر بھی ہُوا اور تباہ بھی۔ویسے اِس عمارت اور لینڈ سکیپ  کا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔ ٹھیکے پر ایران  یا کسی  گورے کو دے دیں ، تو بہت پیسے مل سکتے ہیں،خالی عبرت کس کام کی۔واپسی پر گاڑی  میں بیٹھتے بیٹھتے ایک نوجوان نے ٹکٹ چیک کیا اور ہماری شامت آگئی۔ پہلے خود ہمیں مقامی سیّاحوں والے ٹکٹ دلوائے تھے اور اب کہتے ہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ پاسپورٹ لےکرمجھے دفتر آنے کو کہا۔ ہمارا ڈرائیور جذباتی ہوکر بیچ میں کُود پڑا کہ ایک دینار بھی نہیں دینا۔ پاکستانی مہمان ہیں آپ، مگر ثابت ہُوانادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے ایک بندے نے کہا بھی کہ آپ کا ڈرائیور اچھا آدمی نہیں اور ایک ٹکٹ کے پیسوں میں چھوڑنے کا عندیہ یا مشورہ دیا، مگر اُس ڈرائیور نے ہماری اور اُس  مقامی کی ایک نہ چلنے دی اور بحث جاری رکھی۔ آخر میں مجھ سے دس ہزار دینار لے گیا اور پاسپورٹ لے آیا۔ مَیں خوش کہ چالیس ہزار بچا لایا ،مگروہ کہنے لگا کہ چالیس ہزار اپنی جیب سے  انتظامیہ کو دے کر آیاہوں۔مجھے اس بات کا بالکل یقین نہیں آیا، مگر اب پچھتائے کیا ہوت۔پاکستانی مسافرکوچالیس ہزار دینار کا ٹیکاعراقی ڈرائیور لگا گیا۔ لٹنے کے باوجود راہ کھوٹی نہ ہونے دی اور ذوالکفل  پیغمبرکی یادگار کی راہ لی۔ خوب جی بھر کے ڈرائیور کو گالیاں دیں جس کامیزبان نے تعریفی  ترجمہ کیاتاکہ فریقین خوش رہیں۔

                حضرت ذولکفلؑ کواسلامی روایات میں  اور یہودیوں کے یہاں بھی نبی ماناجاتاہے۔باہر گنبد و مینار اور اندر کی تزئین و آرایش میں یہودی عبادت گاہ کا کوئی شائبہ نہیں ملتا۔البتہ دیواروں کا پیٹرن کچھ مختلفلگا،جودوسرے مذہب سے مستعار ہوسکتاہے۔ چھت پر جانے کی اجازت نہ ملی۔ پاس کا علاقہ جنگ زدہ اور غربت زدہ ہے۔ کچے مکان، ننگ دھڑنگ بچے۔ یہ ماحول تو ہمارےیہاں  بعض مزاروں کے پاس بھی  ہوتاہے۔نقشہ کسی  پیغمبرکے مزار  کے شایانِ شان نہیں تھا۔اِس لحاظ سے مسجدِ قرطبہ ٹھیک ہے۔جہاں صدیوں بعد بھی ملا جلا رُجحان ہے۔ مسجد کے منبر کا حصّہ محفوظ ہے۔سپینی انتظامیہ کی مہربانی کہ محرابیں محفوظ،  چرچ والا معاملہ ایکٹوہے اور نماز یا دعا کی اجازت نہیں۔ زیارت  کر سکتے ہیں۔ آس پاس قرطبہ کا شہر بھی بےمثال ہے۔ جنگ زدہ مُلک عراق کا سپین سے کیا موازنہ کیا جائے۔ایک پیغمبرجسے  دو قومیں مانتی ہیں، اُن کا مزار ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

میری  اگلی منزل نجفِ اشرف تھا، راستے میں اک قومی ہیرو کا مزار بھی ہے، جس نے اسٹیٹس کو کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ باقر الصدر،مقامی لوگ جن کاشجرہ امام موسیٰ کاظم اور آخری پیغمبرﷺ سے ملاتے ہیں۔ عالم ابن عالم۔ صدام نے اُنھیں اور اُن کی بہن کو ایسی بہیمانہ موت دی  تھی کہ انسان کی روح  ماجرا سُن کرکانپ اُٹھتی ہےصدام کے بعد سبز گول مزار بن گیا۔ اعلیٰ تعمیرکا نمونہ،جنگوں میں بھی اور جنگوں کے بعد بھی مذہبی و سیاسی لوگوں کے مزاروں پر کمپرومائز نہیں ہوتا۔ اب وہاں شاپنگ مال بھی بن رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے کلینک،پلازے  ہر شہر کی بڑی شاہراہ کا اہم جزوہیں۔شاید اب یہ  ہی ترقی کا معیارہے۔پاکستان اور عراق نے بے پناہ دہشت گردی کا سامنا کیا ہے،مگروہ تعمیری یا استقامتی جذبہ نہیں دِکھایا،جو ایران میں عالمی اور استعماری پابندیوں  کے باوجود نظر آتاہے۔استقامت، ترقی اور تمدّن کا ایسا امتزاج کہیں نہیں ملے گا۔نجفِ اشرف پہنچ کر، ہوٹل میں سامان رکھا،پھر میزبان ایک مُستند، مگر متنازع عالم کے دروازے پر لے گئے۔ ایک عام سی گلی میں ایک عام سا گھر شیخ السند کا۔جو یوکے کوالیفائیڈ انجینیر، قم کےکوالیفائڈ شیعہ عالم ہیں۔ بحرین میں رہتے ہُوئے اپنی گورنمنٹ کے خلاف اقوامِ مُتّحدہ کو خط لکھا کہ ریفرنڈم کرائے۔ اُس کے بعد نجفِ اشرف میں پناہ لیناپڑی۔ علم وتبلیغ کا کام جاری رکھاہُواہے۔اُن کے اسسٹنٹ نے نمازِمغرب کے بعد آنے کا کہا۔ حیرانی ہوئی کہ یہاں علما اب بھی عام آدمی اور سیّاحوں سے ملنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ ہمارےیہاں پائی جانے والی حویلیاں، فارم، پراڈوگاڑیاں،، گارڈز کے دستے،ایساکچھ بھی نہیں تھا۔ نماز ِ مغرب کے بعد اُن سے ملنے گئے۔ اُن کی انگریزی کو زنگ لگ چکا تھا، سو ویڈیو ریکارڈنگ نہ کی جاسکی۔ آڈیو ریکارڈنگ سے بھی پہلے اُنھوں نے منع کیا،پھر سوالوں کی نوعیت دیکھکر اجازت دے دی۔ نجفِ اشرف کی ایک گلی کے ایک گھر کے تہہ خانے میں آدھاگھنٹا صرف امن کی اور مفاہمت کی بات ہُوئی۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بار بار کہتے رہے کہ نو باکسنگ امنگ سکالرز۔ مل کر، بیٹھ کر بات کرکے اختلافات کم کرنے کی بات کرتے رہے۔ فلسطین کی جنگ اور اُمّتِ مُسلمہ کے وجود کے متعلق سخت سوال پر کہنے لگے کہ شیعہ ممالک کا سٹائل مختلف ہے۔ اِس مسئلے پر آپ اُن کا ردِّعمل دیکھیں گے۔ ٹھیک دو دن بعدسُناکہ ایران نے اسرائیل پر میزائل داغ دیاہے۔علمی اور فقہی  سوالات کے بعد اصل بات شکم کو بھرنا اور وہ بھی نجف کی مشہور مندی کے ساتھ غیر ضروری نہیں تھا۔ ریسٹورانٹ میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔ عراقی میزیں سجائے گوشت اور چاولوں سے نبرد آزما تھے۔ عجیب ہی منظر تھا۔ ایک ماں بیٹا بھی اِسی شغل میں مصروف تھے۔ ماں وہیل چئیر پر تھی مگر مندی کھانے کی رفتار اور مقدار پر کوئی کمپرومائز نہیں کر رہی تھیں۔ بیٹے کا اپنا ہوٹل تھا جہاں کئی پاکستانی ملازم تھے،وہ کُشادہ دِلی سے اُردو کے الفاظ بولنے لگا۔ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ چلو کوئی تو ہوایسا بھی۔ نجفی کی امّاں جی نے ہڈّیوں پر موجود بوٹیوں کا آخری ریشہ تک صاف کرنے کے بعد میز خالی کی تومیری باری آئی۔عراقی مندی  سعودی مندی سے بہتر اور دبئی کی مندی سے کم  ترلگی۔

سَیرِعراق کے آخری  دِنہوٹل کے گیارہویں فلور کی کھڑکی سے نجف کا ایک رُخ عیاں تھا۔ شہر کا ُرُخ ہو، زندگی کی سچائی یا تاریخ کے پہلو؛ انسان کے اندر مکمل دیکھنے کی صلاحیت قدرت نے شاید رکھی ہی نہیں۔ ہم لوگجُز کے نظارے کو کل سمجھ کر اپنا ردِّعمل اور برتاؤ متعین کر لیتے ہیں۔ زائرین کیلئے چھوٹے بڑے ہوٹل، بیچ میں کچے پکے گھر اور ہر گیپ کوپُر کرتی دکانیں۔ ڈرائی فروٹ، ٹوپی، تسبیح، عطر اور دیگر ضروریات ِزندگی فراہم کرتی دکانیں اہلِ نجف اور زائرینِ مزارِ حضرت علی کی منتظرتھیں۔ گیارہ بجے کی سوئی پر بہتا بہارِ نجف، دریا زائندہ کی طرح خشک بھی نہیں مگر ہمارے  دریائےسندھ کی طرح بہت بڑا بھی نہیں۔ مُجھےدُوری اور اونچائی سے تو اِس ذخیرہء آب کو عزت دیتے  ہی بنی۔ نیچے اتر کرآگے جانے کا قصد کیا ،تو میزبان نے کہا کہ آپ کو مایوسی ہوگی۔ وہی مایوسی جوکراچی میں کلفٹن کے ساحل پر ہوتی ہے، ناشتے کے بعد  وادیِ السلام قبرستان گیا۔  مذہبی اساطیر  ساتھ ساتھ تھیں۔ کوئی یہ کہتا ہے آدمؑ کے زمانے کی جگہ ہے۔ کوئی کہتاہے کہ ابراہیمؑ نے اِس جگہ کی نشان دہی  کی تھی۔ کوئی کہتا ہے آخری نبیؐ نے یہاں سے جنّت کی بشارت دی۔ حضرت علی سے تویہاں بہت کچھ منسوب کردیا جاتاہے۔حضرت علی سے عقیدت کی وجہ سے اہلِ تشیع  بطورِ خاص اِس قبرستان میں دفن ہوناباعثِ برکت  خیال کرتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ قبرستان کی توسیع در توسیع  ہوتی رہی ہے،یہ دُنیا کا سب سے بڑاقبرستان مانا جاتاہے۔انتظامیہ  کسی کی خواہش کو ٹالتی نہیں ہے۔ آدمؑ اور نوح ؑکی یہاں موجودگی کی روایت ضعیف ہے۔ ہودؑ اور صالح ؑکی یہاں موجودگی کو درست سچ مان لیاجائے تو واقعی یہ جگہ  نہایت قدیم  مدفنقرار پائے گی۔عراقی سرزمین  ان گنت کہانیوں کا مرکزہے۔ اونٹنی کی روایت  ہو یا آسمانی بجلی کی،مختلف پیغمبروں اور اُن کی اُمّتوں کی۔یہ گرم اور سخت زمین کیسے کیسے انسان نگلتی رہی ہے۔جانے کتنے  پیغمبر، امام اور عام آدمی اِس زمین سے متعلق رہے ہیں۔ امام جعفرصادق کو  بھی یہاں عبادت کرتے دیکھا گیا۔ اُس مقام کو ڈھونڈ کروہاں پہنچا،تو لگا پنجاب کے کسی گاؤں میں بنے گھرکے اندرآ گیاہوں۔ ٹوٹا صحن، پانی کی دھار، کرسی میز لگائے ایک بندہ کونے  موبائل استعمال کرتا  نظر آیا۔ ایک طرف نوافل و نماز کی جگہ تھی تو دوسری طرف کنواں  تھا۔یہ کنواں امام جعفرصادق اور امام ِزمانہ دونوں سے منسوب ہے۔ اُتھےعرضیاں لکھ لکھ پاندےلوک مینوں اپنے پنجاب دے واسی لگے۔ عقیدہ کہیں یا توہم پرستی کہیں یا محض عقیدت، اپنی بےچینی کم کرنے کا طریقہ کہیں یا پھرواقعی سچ مان لیں کہ عرضیاں وہاں پہنچتی ہیں، جہاں مقدّس ہستیاں ہوتی ہیں۔یہ معاملے سائنس یا منطق کے دائروں سے باہر ہیں۔وادی ِالسلام میں تدفین  کے لیے جگہیں پہلے سےبُک بھی ہوتی ہیں۔ کئی قبروں پہ تو چھوٹے مکانوں کا گمان ہوتاہے۔تہہ خانوں میں بنکر نما قبریں بھی ہیں۔ جنھیں پیچھے رہ جانے والوں کی بےچینی کم کرنے کے  مختلف طریقوں سے تعبیر کیاجاسکتاہے۔ جنگوں میں کٹ مرنے والے بچوں کی قبریں، قبریں کم مشرق کی اجتماعی کمزوری پر اور مغرب کی اجتماعی بے حسی پرایک سوالیہ نشان زیادہ ہیں۔

آج  کے سفرمیں ٹیکسی ڈرائیور کا بھائی آیا اور اُس کےساتھ اُسکا کزن بھی تھا۔ عربی میں اُردوجاننے والے سےدونوں نے بے تکلّفی جاری رکھی ۔پھرمیری کوفہ روانگی ہُوئی۔ پہلا پڑاؤ مسجد حنانہ تھی۔ کربلا سے دربار ِیزید جاتے ہوئے سانحہ ء کربلا کے بعدامام حسین کا سرمبارک یہاں لاکر رکھا گیا تھا۔جس پتھرپر سیّدالشہدا کاسرمبارک رکھا گیاتھا،وہ اب بھی وہاں موجود ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں دس محرّم کے دن  اب بھی اُس پتھر سے خون رِستا ہے۔ قریب ہی وفا کے ایک اور پیکر دفن ہیں کمیل ابن زیاد،جوحضرت علی کے دوست، شاگرد اور وفادار ساتھی تھے۔آپ حضرت علی کی وفات کے بعدروپوش ہو گئے تھے،آپ نےحجاج بن یوسف کے دَور میں گوشہ نشینی ترک کی۔ حضرت علی کی وفا کا دم بھرتے رہے، حکومت ِوقت کے عتاب کا شکار ہوئے،اُنھیں قتل کرا دیاگیاتھا۔آپ کا آخری مسکن مسجد حنانہ کی قریبی زمین بنی۔

میرا اِس دورے کا آخری پڑاؤ تاریخی مسجد ِکُوفہ اور حضرت علی کاگھرتھا۔ کوفہ والوں کو مکّہ  اورمدینہ سے دین امپورٹ کرنے کا بہت شوق تھا، مگراُسے سنبھالنے یا سمجھنے کی استعداد نہیں تھی۔کم نصیب کُوفی نہ حضرت علی کے ہُوئے اور نہ اُن کی اولاد کے۔ تاریخ میں  کوفہ کبھی مضبوط شہر بن کر نہیں اُبھرا۔ کوفہ والے  بے وفائی کااستعارہ بنے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد کے زمانوں میں کوفیوں میں بہت بڑے بڑے  علما بھی ہُوئے ۔مسجدِ کُوفہ کی عمارت بہت بڑی ہے۔ باہر کینٹین اور وضو کی جگہ ہے۔ مسجد جانے سے پہلےحضرت علی ابن ابی طالب کے گھر گیا،جسےباہر سے تو جدید ٹچ دے دیا گیا ہے،مگراندر شاید وہی مٹی محفوظ ہے۔چودہ سو سال  پہلے کا سماں ہے۔حضرت علی کا کنواں اب بھی موجود ہے۔ در و دیواربھی موجود ہیں۔گھر کے اصل مکین ظاہر ہے اب وہاں نہیں ہیں۔بہت سوں کو اُمّتیوں نے بے گناہ مارا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر سوچتارہا کہ انھی دیواروں اور دَروں نے حضرت علی اور اولادِ علی کو چلتے پھرتے دیکھا ہوگا۔کیالوگ تھے! کیا زمانے تھے!پھر ابنِ ملجم کے  قاتلانہ حملے کے بعدامیرالمومنین نے اپنی آخری سانسیں بھی اِسی گھر میں لیں۔اِس گھرمیں حضرت  علی کے آخری غسل کی جگہ بھی موجود ہے۔ کفن دفن کا انتظام بھی یہاں ہی ہوا۔سیّدہزینب کا اضطراب بھی اِس چار دیواری نے دیکھا ہوگا۔

کعبہ میں ولادت اور مسجد میں شہادت ایسے لاتعداد اعزازات رکھنے والے حضرت علی ایک ہٹ دھرم طبقے کی انتہاپسندی کا شکار ہُوئے۔نبیؐ کی محنت اور محبت کو انتہاپسندامّتیوں نے یک سر بُھلادیا۔حضرت علی کے گھر کے  قریب ہی وہ مسجد  ہے،جس میں حضرت علی پر حملہ کیا گیا تھا۔ عراق  دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔جو خُدا نے پُوری کی۔عراق کی سرزمین مقدّس ہستیوں کے آثار سے بھری ہوئی ہے، مگر وہاں کی انتظامیہ میں سلیقے کی کمی ہے۔سلیقے کی کمی عراق ہی نہیں ، ساری مُسلم دُنیا کا المیہ ہے۔ لیاقت علی عاصم کا شعر اِس المیے کی صحیح ترجمانی کرتا ہے:

پانی میں ریت، ریت میں پانی تمام شد

اِک مختصر طویل کہانی تمام شد