صحرائے غم کی آبیاری

یہ تحریر 946 مرتبہ دیکھی گئی

اختر شمار کی دو کتابیں سامنے ہیں۔ “عشقِ درویش” میں انھوں نے اپنے مرشد، صوفی ناظر حسین، کا احوال رقم کیا ہے۔ “عاجزانہ” ان کا تازہ ترین مجموعہ کلام ہے۔ ان کی شعری تصانیف کی تعداد گیارہ ہے۔ اردو میں بھی شعر کہے ہیں اور پنجابی میں بھی۔ نثری تصانیف کی فہرست خاصی پُررعب ہے، جس میں تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی ہیں، کالموں کے مجموعے بھی ہیں، پنجابی میں کہانیاں اور کالم بھی ہیں اور رومانی خطوط بھی۔ غرض کہ پورے آل راؤنڈر ہیں۔
“عشقِ درویش” دلچسپ کتاب معلوم ہوئی۔ صوفی ناظر حسین نے اپنی تمام دولت، زرعی زمین، حویلیاں اور کامیاب کاروبار چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی اور نوبہار نہر کے کنارے، نزد بستی شیتل ماڑی، ملتان، ایک کٹیا میں مقیم ہو گئے۔ اس میں تعجب ہی کیا۔ ظاہری دنیا فریبِ نظر ہے۔ جب حقیقی دنیا نظر آنے لگے تو تمام دنیوی مظاہر اور معاملات کھوکھلے اور بے معنی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اختر شمار بھی ان کے مریدوں میں شامل تھے یا شاید “شامل ہیں” لکھنا چاہیے۔ نظرِ کرم میں، پردہ کر جانے کے بعد بھی، فرق نہیں آتا۔ کتاب میں صوفی صاحب کے روز و شب کو سہولت سے بیان کر دیا ہے۔ اگر کمی ہے تو یہ کہ ان کے ملفوظات کا بس کہیں کہیں ذکر ہے۔ صرف ایک عبارت سے ان کے مقام کا کچھ سراغ ملتا ہے: “تمھیں کیا پتا ہم کس جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ بظاہر تو تمھارے سامنے ہی ہیں لیکن تم میں اور ہم میں ایسا ہی فاصلہ ہے جیسے اس نہر کا دوسرا کنارہ ۔۔۔ اس دنیا سے پرے بھی ایک دنیا ہے۔ اس کے اندر ہی ایک اور دنیا آباد ہے۔ نظر آنے والے رنگوں کے علاوہ بھی کئی رنگ ہیں جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ آوازوں سے آگے کئی ان سنی آوازیں ہیں۔” کاش اس طرح کے ان کے ارشادات کتاب میں زیادہ ہوتے۔
صوفی صاحب نے اختر شمار کو شادی کرنے سے منع کیا۔ وہ انھیں کسی اور مقام پر فائز کرنا چاہتے ہوں گے۔ آخری وقت تک کوشش کی کہ ان کا مرید باز آ جائے۔ والدین اور عزیز و اقارب کے اصرار کے سامنے اپنے مرشد کے کہے پر اختر شمار عمل نہ کر سکے۔ شادی کے دو ماہ بعد ڈرتے ڈرتے خدمت میں حاضر ہوئے تو مرشد نے ناراض ہونے کے بجائے فرمایا: “تم نے کچھ پایا ہی نہیں تو کھونا کیا تھا۔ تم سہرا اتار کر ہمارے پاس آ جاتے تو پھر دیکھتے ۔۔۔۔ ہم تمھیں چھتنار درخت کی صورت دینا چاہتے تھے مگر تمھارے گھر والے منجی جتنی چھاؤں لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ بندہ تو وہ ہوتا ہے جس کی چھاؤں میں ایک جہان بیٹھ سکے۔” یہاں پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اختر شمار نے وہ کھو دیا جو اب شاید کہیں اور سے نہیں مل سکتا۔ اختر شمار کو شاعر اور استاد ہی بننا تھا، تحقیق اور تنقید کا حق ادا کرنا تھا۔ تقدیر کے معموں کو کون سمجھ سکتا ہے۔
“عاجزانہ” کا اولیں حصہ نعت، منقبت اور سلام پر مشتمل ہے۔ یہ عقیدت کا معاملہ ہے۔ اس پر رائے زنی نامناسب ہے۔ جو کہا گیا وہ خوب ہے اور جن کی بے مثال عظمت کو سراہا گیا وہی خیر و برکت سے نوازیں گے۔
شروع میں اجمل نیازی نے اختر شمار کی شاعری پر مختصراً اظہارِ خیال کیا ہے۔ اجمل نیازی سخن شناس تھے۔ ثروت حسین پر ان کے باکمال کلمات یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ اختر شمار کے کلام کو بھی انھوں نے اپنے انداز میں فراخ دلی سے سراہتے ہوئے لکھا ہے: “وہ جانتا ہے کہ دردمندی اور ہنرمندی ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں، ایک ادھورے پن کی تکمیل بھی ہوتی ہے جو سچی عاجزی کے بغیر نہیں ہوتی۔”
“کریں کیا” کی ردیف میں دونوں غزلوں کی سادگی اور تہ داری متاثر کن ہے۔ “اطہر ناسک کی یاد میں” جو اشعار کہے گئے ان میں رچا ہوا دکھ دل کو چھوتا ہے۔ “یہ بارانِ غمِ دل ہو کہ دنیا / رہیں گے ہم نہ یہ موسم رہے گا۔” غزلوں میں بھی جہاں تہاں اپنی طرف متوجہ کرنے والے اشعار موجود ہیں:
آخری دید سے یہ ہجر مکمل ہوگا
زہر بھی زہر نہیں خون میں حل ہونے تک
دھوپ سے تھی ہوا کی سرگوشی
تشنگی موت، زندگی بارش
ہنس بھی لیتے ہیں کبھی اپنی پریشانی پر
ہم کسی وقت پریشان نہیں بھی ہوتے
جن نظموں اور غزلوں میں ملک کے بگڑے حالات پر طنز یا احتجاج ہے وہ پھیکی ہیں۔ جسے کسی صاحبِ نظر کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ہو وہ کبھی غیظ آلود شعر نہیں کہہ سکے گا۔ رسمی طور پر کچھ لکھ دے تو اور بات ہے۔ کسی واقعے سے متاثر ہو کر فوری طور پر نظم نہیں لکھنی چاہیے۔ اس کی مثال “انقلابِ مصر” ہے۔ اس طرح کی تحریکیں محض وقتی ابال ہوتی ہیں۔
عشقِ درویش از اختر شمار
ناشر: دی بک سائیٹ، لاہور
صفحات: 142؛ چار سو روپیے
عاجزانہ از اختر شمار
ناشر: دی بک سائیٹ، لاہور
صفحات: 176؛ تین سو روپیے