12 جولائی 2019ء کو شمیم صاحب سے بہت باتیں ہوئیں۔ ان کا دورانیہ لگ بھگ آدھ گھنٹے کا ہوگا۔ بات کے آغاز میں ہی میں نے پوچھا کہ “آپ کو ہندوستانی لکھاریوں میں کون کون سا لکھاری پسند ہے؟” تو انھوں نے بتایا کہ “فوری طور پر میرے ذہن گریش کرناڈ، یو آر اننت مورتی اور ایپا پنکر کا نام آ رہا ہے۔ ایپاپنکر کے ہاں معلومات بہت ہوتی ہیں۔ گریش کرناڈ میرے بہترین دوست ہیں۔ جب میری بیٹیوں غزل اور سیمی کی شادیاں ہوئیں تھیں تو گریش ہاتھ سے بنی ہوئی ساڑھیاں ان کے لیے تحفے کے طور پر لائے تھے۔ تو یہ ان کی محبت کا ایک انداز تھا۔” گفتگو میں شمس الرحمٰن فاروقی کا فراق گورکھ پوری کے حوالے سے مخصوص محبتی انداز کے مظاہرے کا ذکر ہوا تو شمیم صاحب فرمانے لگے کہ “شروع میں فاروقی صاحب فراق کے بہت قائل تھے۔ بعد میں فراق نے ایسا کچھ کہہ دیا ہوگا کہ پہلے والی بات رہی نہیں۔ سلیم صاحب آپ کا نام سلیم سہیل ہے۔ محمد سلیم الرحمٰن اور سہیل احمد خان دونوں میرے پسندیدہ لکھنے والے ہیں۔ تو اس اعتبار سے میرے دونوں دوستوں کا نام تمھارے نام کا حصہ ہے (اور میرا یہ قلمی نام ان دونوں شخصیات کی دین ہے)۔ مجھے یہ سب اچھا لگتا ہے۔ میں حنیف رامے صاحب کی بیوی کے انتقال پر پاکستان میں تھا۔ انتظار حسین کے گھر ٹھہرا ہوا تھا، وہ اُن سے تعزیت کے لیے جا رہے تھے، میں بھی ساتھ ہو گیا۔ پہنچے اور دیکھا کہ ایک صاحب کرسی پر پاؤں ٹکائے بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو انتظار حسین نے کہا کہ تمھاری نظر ان پر ہی کیوں پڑی؟ میں نے کہا انداز اچھا لگا۔ تو بتایا کہ شیخ صلاح الدین ہیں “ناصر کاظمی ۔ ایک دھیان” والے۔”

گوپی دیش پانڈے (جن سے میں اسلام آباد میں مل چکا تھا وہاں وہ گریش کرناڈ اور مہیش الکنچور کے ساتھ آئے ہوئے تھے) کا ذکر چلا تو بتایا کہ “انور سجاد کے پاس دیش پانڈے کے آرٹس کے متعلق رسالے موجود تھے، پتا نہیں اب کہاں ہوں گے؟ سلیم! میں نے ساری زندگی جو بھی تحریر پڑھی، لطف لے کر پڑھی۔ میری زندگی میں اگر کچھ ہرا بھرا پن ہے تو یہ انہی دنوں کی مجھ پر عنایت ہے۔ میں نے اے آر رحمان کا ذکر چھیڑا تو کہا کہ “اے آر رحمان نے حج کر لیا ہے۔ میری بیٹی عرفات کے میدان میں اے آر رحمان سے ملاقات کر چکی ہے۔ رحمان کا تعلق جنوبی ہند سے ہے۔ یہ جنوبی ہند والوں کی میوزک کی گرامر بہت اچھی ہوتی ہے۔ میری پاکستان میں محمد صفدر (صفدر میر) سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے قرۃ العین حیدر کے بارے میں جو تحریر لکھی تھی صفدر میر نے اس تحریر کے حوالے سے میرے خلاف لکھا تھا۔ وہاں میں مبارک احمد سے بھی ملا تھا، وہ آئے تو انھوں نے سائیکل اس انداز سے کھڑی کی جیسے پھینک رہے ہوں۔ مجھے اُن کا یہ انداز اچھا لگا۔ میں نے اُن کی کتاب “زمانہ عدالت نہیں” پڑھ رکھی تھی۔ مجھے اپنے دوست رام چندرن کی مصوری بہت اچھی لگتی ہے۔ مجھے مقامی زبانوں کا ادب پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ دوسرے لوگوں کو بھی مقامی زبانوں کا ادب پڑھنا چاہیے۔ سندھی، پنجابی، ملیالم، کرناٹک، ہندی یہ سب پڑھنی چاہییں۔ اب اگر پاکستان آیا تو امرتسر کے راستے سے آؤں گا (اور وہ پاکستان آئے اور امرتسر کے راستے سے ہی آئے) کیمو چل رہی ہے، پانچ گھنٹے ہسپتال رہنا پڑتا ہے۔ انوار ناصر کو کہنا کہ محمد سلیم الرحمٰن کی “نظمیں” مجھے بھیجے، میں نے اُس پر کچھ لکھنا ہے (اور انھوں نے محمد سلیم الرحمٰن پر شاندار مضمون لکھا۔) تمھارے “ہم سب” والے کالم میں نے پڑھے اور مجھے اچھے لگے ۔ لکھتے رہو۔ انوارناصر کو کہنا کہ پاکستان پوسٹ سے ڈاک بھیجے ، دوسری ڈاک میں کسٹم کے مسائل آڑے آتے ہیں۔ یہاں ہندوستان میں مجھے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمانوں کی کیفیت بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔”









