شمیم حنفی صاحب جب گفتگو کرتے تھے تو ان کی باتوں میں روانی بہت ہوتی تھی۔ بہت دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔ مقامی ادب اور عالمی ادب کے حوالے آتے چلے جاتے۔ درمیان میں ادبی شخصیات کا ذکر ۔ مگر کبھی بھی ایسا نہ لگتا کہ گفتگو کا کوئی مقام ناگوار محسوس ہو رہا ہو۔ شیریں سخنی کس کو کہتے ہیں، اس کا پتا مجھے اُن کی باتیں سُن کر چلا۔ میں نے استفسار کیا کہ “قبلہ آپ جس طرح سے گفتگو کرتے ہیں، یہ کبھی قلم بند ہو جائے تو بہت اچھا رہے” تو بتایا کہ “ہاں میرے ایک شاگرد ہیں، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، اُن کے پاس دو سو کے قریب ریکارڈنگز ہیں۔” (اور سرور الہدیٰ بھی کتنے شاندار انسان نکلے کہ انھوں نے اپنے استاد کی گفتگو کے ایک حصے کو ٹرانسکرائب کرکے انٹرویو کی صورت میں اپنی کتاب ‘تنقید کا تخلیقی آہنگ’ جو شمیم صاحب کے مضامین پر مشتمل ہے، میں شامل کر دیا جسے صریر پبلی کیشنز راولپنڈی نے چھاپا ہے اور اس کی طوالت 545 صفحے ہیں۔)

اس کتاب کو پڑھ کر شمیم صاحب کی شخصیت کا پورا طیف آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ شمیم صاحب ابھی جدہ میں ہی تھے ، بتایا کہ “یہاں خورشید رضوی صاحب بھی آئے ہوئے ہیں، میں اُن کے گھر گیا تھا، وہاں سویرا والے ریاض احمد اور محمد سلیم الرحمٰن صاحب کا ذکر دیر تک چلتا رہا۔ “میں نے ہندوستانی تاریخ دانوں کی تاریخی لیاقت کی تعریف کی تو شمیم صاحب بتانے لگے کہ “ان دنوں تاریخ کا علم بہت ترقی کر گیا ہے۔ رومیلا تھاپر، رام چندرا، عرفان حبیب، وشال مشرا سب زبانی تاریخ پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔” موسیقی کی بات ہوئی تو شمیم صاحب بھیم سین جوشی، کشوری آمونکر، ملک راج آنند، کماگندھرو کا ذکر کرنے لگے۔ صحت سے متعلق استفسار کیا تو فرمایا کہ “دوائی کے اوقات متعین ہیں۔ میں اُن اوقات کا اتباع کرتا ہوں۔ الارم لگا رکھا ہے۔ جب الارم بجتا ہے تو مجھے پتا چل جاتا ہے کہ اب دوائی کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔” شمیم صاحب جب پاکستان آئے تھے تو محمد سلیم الرحمٰن صاحب نے کیفی کاکوری کی “داستان نور نگار” کا ذکر کیا تھا۔

اس پر شمیم صاحب نے بتایا کہ “میں اس کو حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ریختہ کے مالک سنجیو صراف میرے دوست ہیں۔ میں ان کو کہوں کہ کاکوری سے حاصل کرکے اس داستان کو اپنی سائٹ پر اپلوڈ کر دیں۔” (یہ داستان طویل ہے اور ہزاروں صفحات پر محیط ہے جو بعد ریختہ پر اپ لوڈ ہو گئی تھی اور اب محمد سلیم الرحمٰن نے اس کا تعارف اور اس کے کچھ حصے منتخب کرکے سویرا میں چھاپنے کا اہتمام کیا ہے جو جلد سویرا کے آنے والے شمارے میں چھپ جائیں گے۔) انھوں نے حال ہی میں انوار ناصر سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کا ذکر کیا۔ اپنی اُس حاضری کا بھی ذکر کیا جو انھوں نے حرم میں دی تھی اور بتایا کہ “وہاں میں نے اپنی صحت کے لیے دعا کی ہے۔ دعا کرنا میری صحت سلامت رہے۔” اصل میں صحت کا ذکر اس لیے بھی چلا کہ مجھے لاہور میں امجد طفیل صاحب نے بتایا کہ “شمیم صاحب کی صحت بہت زیادہ بگڑ چکی ہے اور وہ بہت مشکل میں ہیں۔” میں اس لیے بھی زیادہ پریشان تھا۔ سو شکر ہے جب ان کی صحت کا حال ان کی زبانی سنا تو میری تشویش جاتی رہی۔ شمیم صاحب سے شاعری اور فکشن سے متعلق بات چلی تو بتایا کہ “اب میں کلاسیکی شاعری اور فکشن کم پڑھتا ہوں۔ مجھے زیادہ نئے لوگوں کی شاعری اچھی لگتی ہے۔ میں نئے لوگوں کے مشاہدات اور تجربات سے واقف ہونا چاہتا ہوں۔ ان دنوں کچھ نئے مضامین لکھ رہا ہوں۔ گرش کرناڈ (جو اُن کے عزیز دوست تھے اور میں شمیم حنفی صاحب سے ملاقات سے پہلے اُن سے اسلام آباد میں مل چکا تھا۔ وہ ڈراما رائٹنگ کی ایک ورکشاپ میں وہاں تشریف لائے تھے جس کا اہتمام نعیم طاہر اور سرمد صہبائی نے کیا تھا اور میں اُس ورکشاپ کا حصہ تھا اور گرش کرناڈ میرے Mentor تھے) کے بارے میں مضمون لکھوں گا۔ میری جب کتاب چھپنے لگتی ہے تو میں اپنی کتاب کے سرورق پر بہت توجہ دیتا ہوں چوں کہ مجھے موسیقی اور مصوری سے دلچسپی ہے اس لیے میں دھیان دیتا ہوں کہ سرورق پر کون سی پینٹنگ کیسی رہے گی۔ ” اس بات پر اس دلپذیر گفتگو کا اختتام ہو گیا۔









