شعلہ بدست لوگ

یہ تحریر 2032 مرتبہ دیکھی گئی

ظفر سپل نے خود کو فلسفے کی ترجمانی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ “فلسفہء مغرب” ان کی تیسری تصنیف ہے۔ اس سے پہلے وہ “ورثہء دانش یونان” اور “مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقا” کے عنوانوں سے دو کتابیں لکھ چکے ہیں۔ یہ تین کتابیں ان کی بیس سال کی محنت کا ثمر ہیں۔ شاید کوئی کہے کہ بیس برس میں صرف تین کتابیں؛ رفتار بہت سست ہے۔ اس طرح کے اعتراض کرنے والے ہمارے ملک میں ادبی اور علمی تصانیف کے سیاق و سباق کو مدنظر نہیں رکھتے۔ ہمارے یہاں شاعر اور ادیب صرف کتابیں لکھ کر زندگی ٹھیک طرح بسر نہیں کر سکتے۔ چند شاعروں اور فکشن نگاروں سے قطعِ نظر، جو کسی نہ کسی وجہ سے مقبول ہو جاتے ہیں، باقی شعرا اور مصنفین کو گزر بسر کرنے کے لیے خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ان کی توانائی منفعت بخش مگر غیر تخلیقی مصروفیات کی نذر ہوتی رہتی ہے۔جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے اس میں وہ لکھنے لکھانے کا شوق پورا کرتے ہیں۔جو لکھتے ہیں بالعموم اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ اس صورت حال میں ظفر سپل کی رفتارِ قلم کم معلوم نہیں ہوتی۔
یہ بھی خیال رہے کہ فلسفے سے دل چسپی رکھنے والے حضرات ملک میں بہت کم ہیں۔ خود کو ایک ایسے علم کی شرح کے لیے وقف کر دینا، جس کے پڑھنے والے تھوڑے ہیں اور داد دینے والے اور بھی کم، جرات کا کام ہے۔ جنھیں فلسفے کے اس جائزے کی اہمیت کا احساس تھا انھوں نے ظفر صاحب کی کاوش کو سراہنے میں بخل نہیں برتا۔ محمد ارشاد صاحب اور قاضی جاوید سے انھیں داد ملتی رہی۔ احمد ندیم قاسمی نے ان کے مضامین “فنون” میں باقاعدگی سے شائع کیے۔ محمد کاظم ان کے مداح تھے۔ اس تناظر میں ظفر صاحب کی مساعی کو دیکھا جائے تو وہ لائقِ تحسین معلوم ہوتی ہے۔
“فلسفہء مغرب” کو چھ حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ پہلے حصے میں متکلمین کا ذکر ہے۔ ان میں سینٹ اوگستین اور سینٹ اکوی ناس سرِ فہرست ہیں۔ ان کے بعد دس صفحے فرانسس بیکن کے لیے مختص ہیں۔ عقلیت پسند فلسفیوں میں دیکارت، سپی نوزا اور لیب نز کا تذکرہ ہے۔ برطانوی تجربیت پسند فلسفیوں کی نمایندگی کے لیے لاک اور ہیوم موجود ہیں۔ جدید مغربی فلسفیوں کا باب سب سے طویل ہے اور تقریباً سوا سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں جن لوگوں کا ذکر ہے انھیں بجا طور پر آسمانِ فلسفہ کے تابندہ ستارے قرار دیا جا سکتا ہے۔ فہرست ہی مرعوب کن ہے: والتیر، روسو، کانٹ، ہیگل، شوپنہار، نطشے، مارکس، برگساں اور رسل۔ مارکس، نطشے اور رسل کے احوال و آثار پر زیادہ توجہ دی ہے۔ ہیگل پر، تعجب ہے، صرف چھ صفحے لکھے ہیں۔ آخر میں کرکے گارڈ اور سارتر پر بات کی ہے۔
سب سے دل چسپ مضامین والتیر اور روسو پر ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور فکر کا احاطہ کرنے کے لیے پندرہ بیس صفحے بہت کم معلوم ہوتے ہیں۔ کاش ظفر صاحب کو اتنی فرصت کبھی مل جائے کہ دو الگ الگ کتابوں میں، جو کم و بیش تین چار سو صفحوں پر مشتمل ہوں، ان کی عجیب و غریب، اور متضاد، زندگیوں کا احوال قلم بند کر دیں۔
فلسفے کا بنیادی مقصد بظاہر یہ معلوم کرنا ہے کہ انسانی زندگی کے کیا معنی ہیں اور وہ کون سی راہِ عمل ہے جسے اپنا کر زندگی قرینے سے گزاری جا سکتی ہے اور اس دنیا یا کائنات میں (کائنات کا جو بھی تصور ان کے سامنے رہا ہو) انسان کا مقام کیا ہے اور گرد و پیش کو سمجھنے کا طریقہ کیا ہے۔ مذہب کیا معنی رکھتا ہے۔ اخلاقیات ہم سے کیا تقاضے کرتی ہے۔
ان نامور فلسفیوں نے جو لکھا اور جو سمجھا وہ قابلِ قدر ہے۔ البتہ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ عملی طور پر ان کی زندگیاں خوشگوار نہیں رہیں اور قول و فعل کے تضادات صاف نظر آتے ہیں۔ کیا کیا جائے! دنیوی زندگی جس طرح کے جبر سے عبارت ہے اور جتنی غیر معقول آزمائشوں سے نمٹنا پڑتا ہے کہ راہِ راست پر چلنا مقصوود سہی، اس پر چل نہیں سکتے۔ یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ ہم نامور شخصیتوں کے حالات کو مکبر کرنے والے شیشے سے ملاحظہ کرنے کے عادی ہیں۔ چناں چہ ان کی خوبیاں اور خامیاں بہت نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اگر ہر آدمی کی زندگی کا اتنی ہی گہری توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو وہ، چند ایک باکمال ہستیوں کو چھوڑ کر، داغ دار ہی نظر آئے گی۔
سینٹ اوگستین اور سینٹ اکوی ناس پر نسبتاً تفصیل سے لکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ یہ بات قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہو سکتی ہے (گو ظفر صاحب نے اس کا ذکر نہیں کیا) کہ اکوی ناس نے آج سے سات سو سال پہلے اپنے ایک رسالے میں بتا دیا تھا کہ یہودیوں کا یہی منصوبہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح پوری دنیا پر قبضہ کر لیا جائے۔
افلاطون اپنی “جمہوریہ” میں شاعروں کو جگہ دینے کو تیار نہ تھا۔ اسی طرح کی بے تکی باتیں کانٹ نے بھی کیں۔ کہا کہ “ناول کا مطالعہ خیالات کو منتشر کر دیتا ہے بلکہ اس سے یادداشت بھی متاثر ہوتی ہے۔” لطف یہ کہ خود تو کنسرٹ سننے جاتا تھا لیکن طالب علموں سے کہتا کہ “موسیقی نہیں سننی چاہیے۔ یہ نسائیت کی ترویج کرتی ہے۔” مختصر یہ کہ فلسفیوں کے خیالات میں اونچ نیچ بہت ہے۔ اگر حکومت کی باگ ڈور کبھی فلسفیوں کے ہاتھ آ گئی، اور افلاطون کی دلی خواہش یہی تھی، تو خدا جانے ادب اور فنونِ لطیفہ پر کیا گزرے۔
کتاب میں پروف خوانی پر توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً اشتہا انگیز کے بجائے انتہا انگیز، جہان فانی کے بجائے “جہان جافی” اور پادری کے بجائے “قادری” چھپا ہوا ہے۔ اور بھی اغلاط ہیں۔ سنین بھی کہیں کہیں غلط ہیں۔ ان اغلاط کی ذمے داری ظفر سپل پر عائد نہیں ہوتی۔ کتاب کے متن کو درست چھاپنا ناشر کا فرض ہے۔
فلسفہء مغرب از ظفر سپل
ناشر: بک ہوم، لاہور
صفحات: 240؛ بارہ سو روپیے