شام سرائے

یہ تحریر 382 مرتبہ دیکھی گئی

غروب آفتاب کامنظر ہمیشہ ایک جیسانہیں ہوتا۔موسم کی تبدیلی نگاہ کے زاویے کو تبدیل کردیتی ہے۔نگاہ کازاویہ ایک معنی میں وہ شعورہے جو دیکھنے کے عمل کو سائنسی بنادیتاہے۔فطرت کو سائنسی نقطہئ نظرسے دیکھنے کی روایت جب سے بھی شروع ہوئی ہو اس نے فطرت کو ہماری نگاہ میں کچھ اور بنادیاہے۔اس کی قیمت آج تک ہم اداکررہے ہیں۔سب سے بڑانقصان یہ ہواہے کہ دھیرے دھیرے تخیل غائب ہوتاگیااور اس کی جگہ ایک سستی قسم کی منطقیت نے لے لی۔فطرت کو دیکھتے ہوئے کبھی اس میں کھو جانے کاخیال آتاہے اور خیال آتے ہی کوئی شئے آنکھوں میں داخل ہو کر پورے وجود کو سیراب کردیتی ہے۔فطرت عام طور پر جس طرح وجود کو سیراب کرتی ہے اس میں دلکشی اور خاموشی کااہم حصہ ہے۔فطرت عام طور پر وجود میں کسی آگ کو روشن نہیں کرتی۔یہ اور بات ہے کہ فطرت دھیرے دھیرے کسی کے لیے آگ بنتی جاتی ہے۔ سودانے یونہی تو نہیں کہاتھا۔
گرم جوشی نہ کرو مجھ سے کہ مانند چنار
اپنی ہی آگ میں،میں آپ جلاجاتاہوں
آج ڈوبتے سورج کامنظر میرے لیے کچھ یوں مختلف تھاکہ اس کے ساتھ پہلی مرتبہ دل کے ڈوب جانے کا احساس ہوا۔شفق کی لالی موسم سرمامیں کتنی نمایاں ہوتی ہے یادیکھنے والی نگاہ تک پہنچتی ہے اس بارے میں کبھی غور نہیں کیا۔شفق جب لہو لہان منظر کاتاثر پیش کرے تو ایسے میں ڈھلتے سورج کامنظربھی کیادیکھنا۔ڈوبتے سورج کے ساتھ پہلے بھی دل ڈوبا ہوگا۔مگر اس کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کی جاسکتی۔سورج توایک ہی ہے اور وہ ایک ہی طرح اپنے سفر کو ختم کرتاہے۔ہمیں یہ لگتاہے کہ آج کاڈوبتاسورج کل سے مختلف ہے۔شفق کی لالی موسم سے متاثر ہوتی ہے اور جب یہ اس قدر متاثر ہو جائے کہ وہ پوری طرح شفق کی لالی نہ ہو کر کسی اور رنگ کی نمائندگی کرے تو ایسے میں دل بھی کچھ اس کے ساتھ سفر پر روانہ ہوجاتاہے۔اسی لیے یہ خیال آتاہے کہ سورج کے ساتھ اسی وقت دل بھی ڈوب سکتاہے جب اس کی لالی صر ف اس کی لالی معلوم نہ ہو لیکن شفق سے ایک ہی رنگ کی نمائندگی ہوتی ہے۔یہ کہنے کے لیے نگاہ کو اس دن کاانتظار کرناپڑتاہے جب ڈوبتاسورج اپنے آس پاس صرف لال رنگ بکھیر رہاہو۔آج اس کمرے سے سورج اسی لیے کچھ مختلف نظرآرہاتھاکہ اس کے آس پاس کی لالی کسی اور رنگ کے ساتھ یہاں تک پہنچ رہی تھی۔دیکھنے والی نگاہ کسی رنگ کے ساتھ کتنی گرفتار ہو جاتی ہے کہ پھر وہ کوئی اور رنگ دیکھ نہیں پاتی۔ کیاایک رنگ صرف اپنے ہی رنگ کانمائدہ ہوتاہے۔رنگوں کی تاریخ رفتہ رفتہ نشانات میں تبدیل ہو گئی اور یہ مختلف ناموں، رویوں اور نظریوں کی نمائندگی کرنے لگی۔آج ڈوبتے سورج کے منظر نے میری آنکھوں کو نئے تجربے سے دوچار کیا۔آنکھوں میں جب کوئی رنگ نہ آئے تو اس سے کیاہو سکتاہے۔ اور وہ رنگ تویقینا نہیں جسے نگاہ دیکھ رہی ہو۔کبھی کبھی یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ آنکھ جس رنگ کو دیکھنا چاہتی ہے وہ رنگ بھی ایک دھوکہ ہی توہے۔اس پر کسی اور رنگ کاالتباس در اصل قصور تو دیکھنے والی نگاہ کاہے۔کسی نے کہاتھاکہ جب ہم کسی منظرکودیکھتے ہیں تو منظر بھی ہمیں دیکھ رہاہوتاہے۔مگر ایسی نگاہ اور ایسی آنکھ ہمیشہ ہر شخص کو ملتی نہیں ہے۔سورج کو دیکھتے ہوئے ایک عرصہ بیت گیا اور یہ سورج نہ جانے کتنی مرتبہ ہمارے جسم میں داخل ہو اہے۔ ہر دن کاسورج دوسرے دن کے مقابلے میں اگر مختلف ہے تو اس میں ہماری نگاہ اور اس ماحول کااہم کردارہے جو سورج کوہمارے لیے کچھ نہ کچھ مختلف بنادیتاہے۔کیاواقعی سورج نگاہ کے راستے سے وجود میں داخل ہوتاہے۔یہ واقعہ نہ ہو پھر بھی کہاجاسکتاہے کہ جو آنکھیں سورج کو دیکھنے کاحوصلہ رکھتی ہیں۔وہ دراصل سورج کو اپنے وجود کاحصہ بناناچاہتی ہیں۔دھوپ کی تمازت نگاہ کی تمازت کے ساتھ مل کر ایسے پیکرکو وجود بخشتی ہے جس کاتصور نہ دھوپ کی تمازت کر سکتی ہے اور نہ ہی نگاہ کی تمازت۔نگاہ کی تمازت ہماری تہذیبی زندگی میں بہت رسواہوئی ہے۔دھوپ کی تمازت کو محسوس کرنے والے ہمیشہ زیادہ رہے ہیں۔مجھے نگاہ کی تمازت کاسراغ آج کے ڈوبتے سورج سے ملا یاکسی اور دن کے سورج سے میں کہہ نہیں سکتا۔لیکن اتناضرور ہے کہ آج شفق کی لالی نے نگاہ کی تمازت کاایک نیاشعور عطا کیا۔سردی کے موسم میں ڈوبتے سورج کی لالی کتنی شائستہ اور مہذب ہوتی ہے۔ اسے تمازت بھی نہیں کہناچاہیے لیکن نگاہ کی تمازت یاتمازتِ نگاہ سے تمازت کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے سورج کسی اور طرح سے اپنے ہونے کاثبوت دے رہاہے۔یہ ہلکی پھلکی کرنیں جو آنکھوں کو لال بھی نہیں کرتیں اور نہ ہی فضاکو لہورنگ بناتی ہیں انہیں ہماری تہذیبی زندگی میں نگاہ کم سے دیکھاگیا۔
شفق کی جو لالی کمرے میں آرہی تھی اس کاراستہ بہت آسان نہیں۔کھڑکی کے چھوٹے بڑے لوہے اور اس کے اندرونی حصے پر لٹکے ہوئے فیروزی رنگ کے پردے راہ میں حائل تھے۔شفق کی لالی کوئی کرن تو نہیں تھی یااسے کوئی اور نام دیاجائے پھر بھی کوئی شئے تو تھی جو پردوں سے چھنتی ہوئی کمرے کے اندر داخل ہورہی تھی۔پردے کارنگ اور ڈوبتے سورج کی ہلکی لالی مل کر کسی تیسرے رنگ کو راہ دے رہی تھی۔یہ کہنا مشکل ہے۔ابھی کچھ ہی دن تو ہوئے ہیں کہ یہ لمبی سی کھڑکی پردے سے آزاد تھی۔اس کارخ مغرب کی طرف ہے۔کھڑکی سے قریب جو بڑے سے درخت ہیں ان پر پرندے ہمہ وقت چہچہاتے ہیں۔یہ پرندے کبھی خاموشی کے ساتھ اور کبھی اپنی آوازوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔کئی بار تو اتنے قریب آجاتے ہیں کہ انہیں چھونے اور پکڑنے کو جی چاہتاہے مگر انہیں معلوم ہے کہ کوئی نہ چھوئے گااور نہ پکڑے گا۔اسی کمرے میں پرندے کی آنکھوں کو بہت نزدیک سے دیکھاہے۔پرندے کی چھوٹی آنکھوں میں آنسوؤں کاکوئی سمندر تھایاچندقطرے تھے۔آج شفق کی لالی نے پرندے کی آنکھوں کو تھوڑے وقفے کے لیے نگاہ سے اوجھل کردیا۔شایدشفق کی کوئی لالی ان چھوٹی آنکھوں میں بھی تھی اورانہیں یہ محسوس ہواہوگا کہ اب سورج ڈوب رہاہے۔آشیانے کی طرف نکل جاناچاہیے۔پھر بھی کچھ پرندے غروب آفتاب کے بعد بھی اِدھر ُادھر نظر آتے ہیں۔انہیں پرندوں کے لیے وزیر آغانے کہاتھا۔
دن ڈھل چکاتھااور پرندہ سفر میں تھا
عجیب اتفاق ہے کہ کھڑکی کاایک شیشہ ٹوٹاہواہے۔معلوم نہیں کہ اسے سورج کی تیز کرنوں نے ریزہ ریزہ کیایاکسی اور طرح سے ٹوٹا۔پرندے اپنی چونچ سے تو نہیں توڑ سکتے۔البتہ بغل کے بند شیشوں کوبعض پرندوں نے اپنی چونچ سے کبھی کبھی توڑنے کی کوشش ضرور کی ہے۔جوشیشہ ٹیبل پر رکھاہواہے اس کی ساخت کھڑکی کے شیشوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے لیکن ٹوٹنے کی آوازتو ایک ہی طرح سے آتی ہے۔اس سالم شیشہ میں ٹوٹے ہوئے شیشے کی آواز موجود ہے۔اس میں کسی پوشیدہ آواز کاگمان شاید اس لیے بھی ہوتاہے کہ اسے بھی بالآخر ٹوٹے ہوئے شیشے کی آواز کاحصہ بن جاناہے۔ٹوٹاہواشیشہ ایک آواز بھی توہے جو ٹوٹنے کی بعد بھی باقی رہتاہے مگر اس کی آواز کوسننے کے لیے کسی اورسماعت کی ضرورت ہے۔دل کے ٹوٹنے کاخیال تو اتنارسمی اور رواجی ہو گیاہے کہ اب شیشے کے ٹوٹنے کاہی خیال آتاہے۔سورج کو ڈوبے تقریباً ایک گھنٹہ ہو گیاہے اور اس کمرے میں فیروزی رنگ کے ساتھ کسی ایسے رنگ کا گمان ہوتاہے جو سرخ بھی نہیں اور سیاہ بھی نہیں۔

23/01/2023