شامِ درِ وجود

یہ تحریر 284 مرتبہ دیکھی گئی

شام درِ وجود پہ دستک دیے جا رہی ہے
دُھند کا مٹیالا جال وقت کا ماہی گیر کے ہاتھ میں پھیلتا جا رہا ہے
لو یہ اس کے پھیکتے پھینکتے گہری سیاہ چادر میں تبدیل ہو گیا
چپ کی کورچشم ساعت زندگی کی بندرگاہ سے
بستی کے دروبام پر انڈیل دی جائے گی
سورج اور دھوپ سے بے نیاز بستی
چراغوں کی منت کش ہو چکی
اور چراغ ہوا و حبس کا درمیان معلق اجل رسیدہ لرزیدہ
صبح کی پہلی کرن کا رزق
کل کی نقش گری،
کون کرے؟