سڑک

یہ تحریر 672 مرتبہ دیکھی گئی

نرم و ملائم اور آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے، یوذاسیف خیال کی تنہائی میں محو تھا۔ آفس کا دروازہ ہلکا سا کھولا ہوا تھا جہاں سے اس کا چہرہ جو بالکل سپاٹ تھا دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ خیال ہی خیال میں اپنے بچپن کی حسین یادوں میں اس قدر مستغرق ہو گیا کہ اسے آفس کے ممبران کی بے معنی گفتگو بالکل سنائی نہ دے رہی تھی۔ باہر سورج روشن تھا جس کی روشنی کھڑکی کے صاف و شفاف شیشے سے اندر جھانک رہی تھی۔ آسمان بادلوں کی کمی محسوس کر رہا تھا اور چند ہلکے نیلے رنگ کے پرندے آسمان کی وسعت میں کسی کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ باہر گلی سے خراماں خراماں گزرتے لوگ ایک دوسرے کو اجنبیوں کی طرح گھور رہے تھے۔ یوذاسیف کو باہر کی دنیا سے کچھ واسطہ نہ تھا، وہ تو بس اپنے خیالات کی گہرائی سے چند یادیں سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔اچانک ایک یاد اس کے ذہن کی گہرائی سے اٹھی اور دل کو روشن کرتی ہوئی چہرے پر مسکراہٹ کے لمس کے ساتھ پھیل گئی۔ وہ اچانک اس درخت کے نیچے پہنچ گیا جہاں اس کے استاد ایک ہاتھ میں چاک اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی سی کتاب لیے سیاہ تختے پر کچھ لکھ رہے تھے، اور وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت ہاتھوں میں قاعدہ پکڑے استاد کو دیکھ رہا تھا۔ استاد لکھتے جا رہے ہیں، لکھتے جا رہے ہیں اور ساتھ سمجھاتے بھی جا رہے ہیں کہ تین اور سات دس ہوتے ہیں اور پانچ اور دو سات۔ وہ یادوں میں کھویا رہا، اور یادوں ہی یادوں میں اپنے آپ کو نوجوان بنتے ہوئے دیکھتا رہا۔ استاد پڑھا رہے ہیں، زندگی کے گُر سیکھا رہے ہیں اور وہ اور اس کے ساتھی بڑے ہو رہے ہیں۔ اچانک بجنے والی فون کی گھنٹی نے اسے چونکا دیا جس کی بدولت یادوں کا تلاطم تھم سا گیا۔ اور اس نے اپنے آپ کو ایک نرم و ملائم کرسی پر بیٹھے اور رسیور کو کان سے لگایا ہوا پایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ”سر ایک معمر آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ اس نے اپنے ہاتھ سے بالوں کو سنوارا اور کہا، ” اندر آنے دیں “ اور ریسیور رکھ دیا۔ کچھ لمحات بعد معمر آدمی اس کمرے میں داخل ہوا جس کا اندرونی رنگ ہلکا پیلا اور دروازے کے باہر دو گلدان پڑے ہوئے تھے۔ جیسے ہی وہ آدمی کمرے میں داخل ہوا تو یوذاسیف کو جھٹکا سا لگا اور حلق سے الفاظ اچانک پھوٹ پڑے ، ”استاد محترم آپ؟“ اس کے الفاظ سے معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو۔انہیں بٹھایا گیا اور خاطر تواضع کی گئی۔ دورانِ گفتگو یوذاسیف نے ادب سے سوال کیا، ” جناب آج کل آپ کہاں رہتے ہیں اور کس ادارہ میں پڑھاتے ہیں؟“ استاد نے نگاہ کو بلند کیا اور اپنے سابق شاگرد ، جو آج افسر کے روپ میں قیمتی لباس میں ملبوس اس کے سامنے والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا ، کے چہرے پر نظر دوڑائی، اور جواب دیا, ” اُسی گاؤں میں رہتا ہوں اور اُسی درخت کے نیچے بچوں کو پڑھاتا ہوں جہاں سے میرے سامنے بیٹھنے والے افسر کا گہرا اور سنہرا تعلق ہے۔“یہ الفاظ جب یوذاسیف کی سماعت سے ٹکرائے تو وہ پھر خیالوں کی گہرائی میں چلا گیا۔ مگر اب کے بار خیال سے ابھرنے والی تصویر اس کے سنہری بچپن کی یادوں کی نہ تھی بلکہ ایک سڑک کی تھی، ایسی سڑک جو ہر راہرو کو اس کی منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے مگر خود وہیں پڑی رہتی ہے جہاں پہلے تھی، مگر اس پر سے گزرنے والے اپنی خیالی دنیا کو حقیقت میں حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر اس سڑک کا وجود ہی نہ ہو تو بھٹکنے والے مسافروں کو ان کی تخیلاتی دنیا کو حقیقت میں ڈھالنے کا گُر کون سکھائے اور وہ راہ جو منزل کو حاصل کرنے کی عظیم شاہراہ ہے کون دیکھائے؟ کون دیکھائے؟ کون؟