سپنا

یہ تحریر 510 مرتبہ دیکھی گئی

۔۔۔۔۔۔
آنکھیں چھت میں گڑی رہیں گی۔
اندھا کمرہ، تنہائی کے سلکی لمس میں کھع جائے گا
پردوں میں بوسیدہ خوشبو، گرد کی تلخی،
گھڑی کی سانس اکھڑ جاتی ہے

رات کی ظلمت،
ذات کے درپن میں جھانکا درگاہ کا دیپک
پاگل ہنستا ہی جاتا ہے

بند کِواڑوں کی درزوں میں
چھن چھن گرتی صبح کی کرنیں
زنداں کا در کھول رہی ہیں

زنداں کا در،دوست نہ دشمن
آنکھیں ملتا رہ جائے گا۔

دیکھ تو باہر خوف کا کتا بھونک رہا ہے
رخت سنبھال کے بیٹھنے والے سوچ سے لڑتے رہ جاتے ہیں