سمندر مجھ سے کہتا ہے
کہ اب تم بادباں کھولو
ذرا منہ سے تو بولو
کہ کیسے کیسے چہرے، پھول جیسے
کچھ اُن میں سے جواں ، کچھ سال خوردہ
کہاں ہیں وہ
سمندر مجھ سے کہتا ہے
کہ اب تم بادباں کھولو، ذرا منہ سے تو بولو
کہ اب تو باغباں بھی خوف کی اک بے تلاطم، بے اماں، بے رحم ندی پر
یوں لمبی تان کے سوتا ہے
جیسے چار جانب امن ہو اور آشتی ہو،
کچھ نہ ہو___