سمندر متوازن رہتا ہے

یہ تحریر 283 مرتبہ دیکھی گئی

بھوک، ساحل پر دم توڑتے کُتے کی ہِچکی سے
جنگل میں دانت کِچکِچاتے ہائناز کی چیخوں تک
ہماری تہذیب کا مرکزِ ثقل ہے
جبھی تو سفینہ توازن کھو بیٹھتا ہے
سمندر ہموار رہنے کے لئے بنا ہی نہیں
پھر بھی ہم خود کو کشتیوں میں بھر کر سمندر کو سونپ دیتے ہیں
بادباں بادل سے ہمکلام ہوا
تو خود سپردگی پربت پر برف کے گالوں کی صورت میں اترنے لگی
پہاڑ کی بزرگ چوٹی
میرے سر کی سفیدی سے دھوپ کی سِکری چنتی،
سوچ کے صحراؤں میں غبار کے خیمے گاڑتی
ڈولتی کشتی کا مستول تھام لیتی ہے
ناخدا کا استقلال کشتی کا بادباں بھی ہے اور مستول بھی
جب تک اسے ساحل پر دم توڑتے کتے کی ہچکی
اور دانت کچکچاتے ہائناز کی چیخیں سنائی نہیں دیتی
سمندر متوازن رہتا ہے