سر ٹامس میلوری

یہ تحریر 2674 مرتبہ دیکھی گئی

(1410ء ۔ 1471ء) انگریز داستان نویس میلوری کے حالاتِ زندگی کا کچھ یوں ہی سا اس کی تصانیف سے پتا چلتا ہے اور بعض معلومات چند دستاویزات سے حاصل کی گئی ہیں لیکن اس میں کچھ کلام ہے کہ جس میلوری کا دستاویزات میں ذکر ہے وہ اور مصنف ایک ہی شخص ہیں۔ بہرحال، بظاہر وہ واروک شاعر کاؤنٹی میں جاگیردار تھا اور وہاں سے پارلیمنٹ کا رکن بھی منتخب ہوا تھا۔ 1443ء کے بعد اس کی زندگی زیادہ تر قید خانے میں یا مفرور رہنے میں گزری۔ اس کے جرائم کی فہرست خاصی لرزہ خیز ہے: گھات لگا کر قاتلانہ حملے کی کوشش، ایک شخص کے گھر میں زبردستی گھس کر خاتونِ خانہ کی عصمت دری، لوگوں سے زبردستی مال اینٹھنا، رسہ گیری، ڈکیتی، گرجا لُوٹنا، قیدخانے سے مار دھاڑ کرکے فرار ہو جانا۔ ان الزامات کو کلی طور پر درست سمجھنا ضروری نہیں۔ 1456ء میں اسے بادشاہ نے معاف کر دیا تھا لیکن اس بات کو اس کی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا مشکل ہے کیوں کہ کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ قید خانے میں پہنچ چکا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ قید کے دوران ہی فوت ہو گیا ہو۔ میلوری کی تحریر سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اسے اپنے دور کی خانہ جنگی اور نائٹ ہڈ کے اشرافی نصب العینوں کے انحطاط پر گہرا دکھ تھا۔

آرتھر بادشاہ اور اس کے شہسواروں کے قصوں پر مشتمل تقریباً بارہ سو صفحات پر پھیلی ہوئی اس طویل داستان کا بیشتر حصہ میلوری نے غالباً قید خانے میں لکھا تھا۔ یہ ضخیم داستان ہم تک دو مختلف صورتوں میں پہنچی ہے۔ اس کا واحد مخطوطہ اتفاقاً 1934ء میں دریافت ہوا۔ یہ بہت بعد کی بات ہے۔ سب سے پہلے اسے 1475ء میں کیکسٹن (1421ء۔ 1491ء) نے، جو انگلستان کا پہلا طابع تھا، مرتب اور شائع کیا۔ کیکسٹن کے سامنے کوئی اور قلمی نسخہ تھا۔ اس نے میلوری کی تصنیف کو مدون کرتے وقت خاصی آزادی سے کام لیا۔ بہت سی عبارتیں حذف کر دیں، بعض اجزا کو دوبارہ لکھا اور کتاب کا نام “مرگِ آرتھر” رکھ دیا۔ یہی نام اب زبان زد ہے۔ 1934ء میں دریافت ہونے والا مخطوطہ ناقص الطرفین ہے۔ اس لیے یہ نہیں معلوم کہ میلوری نے اپنی کتاب کا ، جو درحقیقت آٹھ قصوں کا مجموعہ ہے، کیا نام رکھا تھا۔

ازمنہ وسطیٰ میں آرتھر بادشاہ اور اس کے دلیر شہسواروں کے کارناموں کے قصے بہت مقبول تھے۔ ان قصوں میں مختلف وقتوں میں شاعروں اور داستان نویسوں نے بہت سے اسرار و رموز سمو دیے تھے جو بظاہر مسیحی عقائد سے منسلک معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں پرانے وثنی عقائد بھی ہیں اور علامتیں بھی گھل مل گئی ہیں۔ آرتھر بھی بالکل خیالی شخصیت شاید نہ ہو۔ خیال ہے کہ وہ چھٹی صدی عیسوی کا ایک بادشاہ تھا جس نے انگلستان پر اینگلوسیکسن قبائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔

میلوری کے بڑے ماخذ دو تھے۔ ایک تو چودھویں صدی کی انگریزی نظم، جس میں آرتھر کی آخری دو جنگوں اور موت کا بیان ہے، اور دوسرا مختلف نہایت طویل فرانسیسی داستانیں۔ فرانسیسی داستانوں میں قصے کے اندر اور اردگرد مذہبی عقائد، باطنی اسرار اور مقدس گریل کی تمجید کا جو پیچیدہ تانا بانا تھا، عشق مجازی اور عشقِ حقیقی کے درمیان کشمکش کا جو پہلو تھا، میلوری نے اسے قریب قریب نظر انداز کر دیا۔ ممکن ہے کہ وہ اس کی  معنویت کو پوری طرح سمجھ نہ پایا ہو۔ میلوری کی کوشش یہی رہی کہ پیچیدگیوں اور باریکیوں کو تراش خراش کر قصوں کو زیادہ سہل، سطحی اور حقیقت پسندانہ بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر اس نے قصوں میں مذکور طلسمی اور مافوق الفطرت واقعات کو بہت گھٹا دیا ہے۔

حقیقت پسندی کی طرف اس جھکاؤ کے سبب آرتھر اور اس کے سورما زیادہ دنیوی اور خطاکار معلوم ہونے لگے ہیں۔ یہ نہیں کہ میلوری نے ان کے خصائل حمیدہ  تہور کو نمایاں نہ کیا ہو مگر ان کی بشری کمزوریوں سے چشم پوشی بھی نہیں کی۔ چناں چہ آرتھر کے دربار سے سبھی بڑے سورما، یکے بعد دیگرے، بے وفائی اور حلف شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ خود نیک دل آرتھر بھی، جو خیر اور نظم و ضبط کی علامت ہے، آخری قصے میں شر اور بدنظمی کی قوتوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔

میلوری نے یوں تو آٹھ الگ الگ قصے لکھے ہیں لیکن آخری چار قصے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور متاثر کیے بغیر نہیں رہتے۔ لانے لوٹ اور آرتھر کی ملکہ گینے دیر کا ناسزا معاشقہ، غداری اور نمک حرامی کی وجہ سے گول میز کے رشتے میں منسلک سرداروں میں پھوٹ پڑ جانا، ایک بڑی خانہ جنگی میں آرتھر اور اس کے شہسواروں اور سلطنت کا برباد ہو جانا، آخری معرکہ اور آرتھر کی موت اور پھر لانے لوٹ اور گینے دیر کا مرنا، یہ سارے ماجرے ایک ایسے گمبھیر اجاڑ پن اور ڈوبے ہوئے ہیں جو پوری طرح محسوس ہوتا ہے اور یوں میلوری نے، گویا حدیثِ دیگراں کا سہارا لے کر، اپنے دور کی ترجمانی کی ہے جو خانہ جنگی اور مزاج کی وجہ سے تہ و بالا ہو گیا تھا۔

وہ قصے بھی جو گریل کی مہمات سے متعلق ہیں کیفیت سے خالی نہیں۔ یہاں ہم اجاڑنگری، گریل کے قلعے، پُرخطر چیپل (خانہ گرجا) اور زخمی بادشاہ سے دوچار ہوتے ہیں۔ کشتی پر ایک لاش یا لاش نما صورت، بین کرتی عورتوں کے جھرمٹ میں نظر آتی ہے۔ مگر میلوری نے چوں کہ ان کی معنویت سے سروکار نہیں رکھا اس لیے ان عجوبوں سے پیدا ہونے والی سنسنی اور حیرت ناپائیدار ثابت ہوتی ہے اور ان کا اعادہ بے لطفی میں بدل جاتا ہے۔

میلوری نے شہسواریت کے دور کو اپنا موضوع بنایا ہے جو صدیوں پہلے ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ وہ ایک قصہ پارینہ کو لے کر آگے چلتا ہے۔ ایک سطح پر جنگ و جدل، شہسواروں، معاشقوں اور عجائبات کی یہ دنیا انسانی ذات کے اپنے اسرار و رموز کی ترجمان ہے۔ یہاں لاشعور کی حکم رانی ہے جو آفاقی علامتوں اور نخستمثالوں سے سٹیج سجاتا ہے اور کرداروں کو، نت نئے لباس پہنا کر، بساطِ زمانہ پر مہروں کی طرح چلاتا ہے؛ دوسری طرف یہ مجموعی انسانی صورتِ حال کی الم ناکی اور فنا پذیری بھی ہے۔ داستان کا سارا منظر زوال آمادہ نظر آتا ہے۔ میلوری کی نثر ایسی ہے جیسے کوئی باتیں کر رہا ہو۔ اس کا بنیادی وصف متوازن متانت اور سادگی ہے جس کے گرد سپاٹ ہو جانے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ مکالمے چست ہیں اور بعض اوقات کرداروں کی انفرادیت کو اجاگر کرنے میں ممد ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم اس نثر کی دلکشی، جس میں جا بجا اداس شوکت ابھرآتی ہے، اپنے موضوع کی طرح، دورافتادہ سی چیز ہے، جیسے اس کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہو اور جس میں سکت نہ رہی ہو۔ میلوری کے ہاں قصہ نثر کو سہارا دیتا رہتا ہے۔