ستون گریہ( نعتیہ نثری نظم )

یہ تحریر 940 مرتبہ دیکھی گئی

ازل سے
یہ رسم چلی آتی ہے ،
اہل ہجر
دیواروں اور ستونوں سے
لپٹ کر روتے ہیں ،
انہیں حال دل سناتے ہیں ،
فریاد کرتے ہیں ؛
تاریخ میں
صرف ایک بار ایسا ہوا ہے ،
ایک ستون نے ،
شجر خشک نے ،
فراق یار میں آنسو بہائے ہیں ،
ماتم کیا ہے ؛
اس کا نالہ غم ناک سن کر
اہل دل بھی حیراں تھے ،
گریہ کناں تھے ؛
اگر اس روز
یار مہربان نے
اسے سینے سے نہ لگایا ہوتا ،
وہ قیامت تک محو گریہ ہی رہتا ،
روتا ہی رہتا ،
اور سب کو رلاتا !
دست دعا سے
اسے بہار بے خزاں عطا ہوئی ہے ،
اب وہ ابد تک
باغ بہشت میں لہلہاتا رہے گا،
مسکراتا رہے گا !