سالانہ خطبہِ صدارت

یہ تحریر 1419 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

اسے فکرِ انسانی کا کرشمہ کہیے یا المیہ کہ یہ عہد بہ عہد افکار و خیالات کے نئے نئے پتلے بناتی اور تراشتی رہتی ہے اور پھر انھیں ترمیم یا شکست سے دوچار کر کے نئی مہم جوئی پر نکل کھڑی ہوتی ہے۔ عہدِ جدید میں علوم کی پرانی حدبندیاں تیزی سے منہدم ہو رہی ہیں اور بین العلومی منہاج (Inter-Disciplinary Approach) پر اصرار ہو رہا ہے، جو یقینا اپنی جگہ بڑا مبارک ہے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ بعض فکری تغیّرات، ثبات اور دوام کی قدروں کے لیے، ایک مستقل چیلنج کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ معروضی صداقت نام کی کوئی چیز ہوتی بھی ہے یا نہیں؟ مابعد جدیدیت کے علمبردار کسی ایسی صداقت کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔ بریسلر کے خیال میں ان مفکّروں اور علمبرداروں کے نزدیک صداقت کی تمام تعریفیں اور اس کی نمائندہ توضیحیں محض ذہنِ انسانی کی زائیدہ ہیں، صداقت کی اپنی حیثیت اضافی ہے۔ یہ مفکّر نقشے کے بجائے کولاژ پر اصرار کرتے ہیں اور کولاژ کے معانی ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ نقشے پر نگاہ کرنے والا اس کے معانی اور سمت کے تعیّن میں مدد لیتا ہے، کولاژ کا ناظر و ناقد کئی ممکنہ تعبیرات کے در کھولتا ہے۔ ناظر یا قاری تمثالوں کے واحدوں کے تنوّع کو ایک دوسرے کے بالمقابل لاتا اور کولاژ کے معانی لحظہ بہ لحظہ بدلتا جاتا ہے۔ گویا ہر قاری یا ناظر حقیقت کی موضوعی تعبیر کرتا ہے، جو اس کی اپنی ہوتی ہے۔ تعبیر کی یہ تکثیریت اپنی جگہ کتنی ہی قابلِ داد کیوں نہ ہو مگر اس کا الم ناک پہلو ”شد پریشاں خوابِ من از کثرتِ تعبیر ہا“ کا مصداق بہرحال بن جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ صداقتوں اور سچائیوں کا منبع ذہنِ انسانی ہے یا اُن کا صدور ذاتِ الٰہ سے ہوتا ہے؟ مابعد جدیدیت کے علمبردار اس سوال کے اوّلین حصّے سے متفق نظر آتے ہیں۔ اگر ہر فرد کی صداقت دوسرے فرد کی صداقت سے الگ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں نہ معاشرے کا ارتباط ممکن ہے، نہ اس کی بقا اور نہ ہی وحدتِ فکر کا کوئی امکان باقی رہتا ہے۔ دراصل مغربی ذہن تعقّلِ محض کے شکنجے کا اس بُری طرح اسیر ہو گیا ہے کہ الوہی صداقتوں اور ان کے دوام اور ابدیت کی طرف منتقل نہیں ہو پا رہا۔ اس سے فسادِ فکر و عمل کی وہ صورتیں پھوٹتی ہیں جن کے باعث یہ پوری دھرتی اس وقت ایک حشر خیز جہنّم زار کا منظر پیش کر رہی ہے۔ معاشرے یقینا ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، اور ہیں، لیکن کھال کے نیچے ہم سب ایک ہیں —- بڑی حد تک مشترک طرزِ احساس رکھتے ہیں، مشترک درد رکھتے ہیں۔ ہسٹن اسمتھ (جلال الدّین) نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ ہم کسی دوسرے کے ”دوسرے پن“ کا اس وقت تک احترام نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنے ساتھ اس کی مماثلت کا ادراک اور اعتراف نہ کر لیں۔ اسمتھ تبّت کے ایک صوفی دانشور کارلو رِمپوچی کا قول نقل کرتا ہے جس کی صداقت، حیرت انگیز حد تک، اقبالؒ کے ایک شعر سے مماثل ہے۔ کارلو رِمپوچی نے کہا تھا:

”عقل کہتی ہے میں کچھ بھی نہیں، عشق کہتا ہے میں سب کچھ ہوں۔“

یوں لگتا ہے گویا رِمپوچی نے اقبالؒ ہی کے شعر کو لفظاً لفظاً نثر میں دہرایا ہے:

در بود و نبودِ من اندیشہ گماں ہا داشت

از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من

وقت آ گیا ہے کہ تہذیبیں ایک دوسرے کے ہاں مشترک پہلو تلاش کریں اور وحدتِ آدم کے نام پر ایک دوسرے کا اثبات کریں۔ ”بنی آدم اعضائے یک دیگر اند“ کا نعرہ صرف اقوامِ متحدہ کی دیوارِ بزرگ ہی کی زینت بن کر نہ رہ جائے، دلوں میں بھی اُترے، لہو میں بھی جاری و ساری ہو!

مگر ہو کیا رہا ہے؟ خشکی اور تری میں ہر جگہ فساد اور ہلاکت کی کارفرمائی ہے۔ آگ پھیلتی ہے تو ایک گھر تک محدود نہیں رہتی۔ زہریلی ہوائیں کسی پاسپورٹ پر سفر نہیں کرتیں۔ اپنے ہی ملک پر نگاہ ڈالیں: نصب العینوں کی شکست، تنگ نظری کا دیوِ استبداد، خودکش دھماکے، قانون اور ضابطے کی بے احترامی، لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری، افلاس اور عدم مساوات کی حکمرانی —- قصّہ مختصر:

ہر طرف ڈھیر ہے ٹوٹے ہوے پیمانوں کا!

پڑوسی ملک میں صورتِ احوال کیا ہے؟ اروندھتی رائے سے پوچھیے۔

“An Ordinary Person’s Guide to Empire” میں ایک جگہ لکھتی ہیں:

“It (India) is conducting nuclear tests, rewriting history books, burning churches and demolishing mosques. Censorship, surveillance, the suspension of civil liberties and human rights, the questioning of who is an Indian citizen and who is not? particularly with regard to religious minorities, are all becoming common practice now.” (p.79)

مگر انڈیا چونکہ ایک بڑی مارکیٹ ہے لہٰذا، بقول رائے، CNN ان ناہمواریوں اور مظالم کو آئینہ کرنے سے قاصر ہے۔ اورہان پامک (۱۹۵۲ء) نے اپنی فکر انگیز کتاب (2007ء) “Other Colors” میں کیسی عمدہ بات کہی تھی، اور اس میں کیسی دردمندی چھپی تھی:

“When another writer in another house is not free, no writer is free.” (p.182)

اس نے اپنی پین (PEN) آرتھر ملر تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ آیئے ہم یہ سوچیں کہ ثقافتوں اور مذہبوں میں کیڑے نکالنا کہاں تک صحیح ہے؟ یا زیادہ مناسب لفظوں میں یہ سوال کرنا کہ جمہوریت اور آزادی کے نام پر ملکوں پر بے رحمانہ بمباری کرنا کہاں تک روا ہے؟ عراق کے خلاف جنگ اور ایک لاکھ انسانوں کے بے رحمانہ قتل کے نتیجے میں کہیں امن اور جمہوریت نہیں آ سکی بلکہ اس کے برعکس مغرب کے خلاف نفرت اور غم و غصّے میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ وحشیانہ اور ظلم سے بھری جنگ امریکہ اور مغرب کے لیے باعثِ شرم ہے۔ (ص۱۸۳) کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار ممتاز امریکی دانشور، ناول نگار اور نقاد سوسن سونٹیگ نے کیا تھا کہ افغانستان اور عراق میں نہتّے شہریوں کے قتل سے امریکہ کے خلاف نفرت بڑھے گی۔ اس نے اس موقع پر امریکی صدر کی تقریر بازیوں کو “cowboy rhetoric” قرار دیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ انتقام، نفرت، باہمی آویزش، قتل و سلب، تباہی و بربادی اور اجتماعی ذہنی اختلال اور پاگل پن کی اس دل شکن اور ہوش رُبا فضا میں کیا کرنا چاہیے کہ زخموں پر مرہم رکھا جاسکے اور اجتماعی آفاقی صحت کو بحال کرنے یا کم از کم مصائبِ عالم کو کسی قدر کم کرنے کا رستہ ہموار کیا جا سکے؟ میرے نزدیک ایک ہی رستہ ہے۔ بہت لمبا اور کٹھن مگر بہرحال منزل تک پہنچانے والا۔ اور وہ ہے باہمی انسانی احترام اور رواداری کا رستہ! فنونِ لطیفہ اور عالمی آداب (World Literatures) بھی اسی احترامِ آدم اور رواداری کا سبق دیتے رہے ہیں اور خود ہمارا اُردو ادب بھی اس محضر پر ایک ناطق اور معتبر گواہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صرف شاعری ہی کو لے لیجیے۔ ملّا وجہی سے اقبالؒ تک، اور اقبالؒ سے ہمارے عہد تک، احترامِ آدمیت، رواداری اور برداشت کے عناصر شاعری میں جا بہ جا نظر آئیں گے۔ دراصل بڑا ادب ہی تہذیبوں کو اپنے گہوارے میں پالتا پوستا اور جوان کرتا ہے۔ بڑا ادب اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک دل ابنِ عربیؒ کے دل کی طرح کا نہ ہو جائے جس کی بے کنار وسعتوں میں ہر مشرب و مسلک کے ہرن قلانچیں بھرتے نظر آئیں۔ ذرا بابا فغانی کے دو شعر سنیے اور دیکھیے کہ وہ کس طرح ”اندوہِ عالم“ کو اپنا اصل اثاثہ اور سرمایہ جانتا ہے اور رسمیات و ریاکاری سے بلندتر ہونے اور یک رنگی و یک جہتی کی علامتیں استعمال کرتا ہے:

بقدرِ طاقتِ خود ہر کسے غمے دارد

دلِ من است کہ اندوہِ عالمے دارد

سبحہ را بگسل فغانی، گر پشیماں گشتہ ای

کانچہ در تسبیحِ زاہد نیست در زنّار ہست

”زنّار“ کے ظاہری معانی پر نہ جایئے۔ اصطلاحِ تصوّف میں یہ سالک کی یک رنگی، راہِ دین میں متابعت اور راہِ یقین میں استقامت سے عبارت ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ راہِ حق میں استقامت سے بڑی کوئی کرامت نہیں!

تشبیہوں، تمثیلوں، تمثالوں، استعاروں اور علامتوں کے پیرایے میں ہمارے تخلیق کاروں نے سچائی، صداقت اور احترامِ آدمیّت کا جو سبق دیا ہے وہ ہمارے ادب کا ایک لازوال سرمایہ ہے، ایسا سرمایہ جس کو لفظ پرستی اور تخیل سے محروم خشک فکری سے ماورا ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ذیل کے چند شعر دیکھیے:

خدا ساز تھا آزرِ بت تراش

ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں

(میر)

کر زندگی اس طور سے تو درد جہاں میں

خاطر پہ کسی شخص کے تو بار نہ ہووے

بستے ہیں ترے سایے میں سب شیخ و برہمن

آباد تجھی سے تو ہے گھر دیر و حرم کا

یارب! درست گو نہ رہوں عہد پر ترے

بندے سے پر نہ ہو کوئی بندہ شکستہ دل

(درد)

باراں کی طرح لطف و کرم عام کیے جا

آیا ہے جو دُنیا میں تو کچھ کام کیے جا

(آتش)

رات دن غافل! بدوں سے بھی کیا کر نیکیاں

کیا بُرا ہے اس میں؟ کچھ تیرا بھلا ہو جائے گا

ناسخ

ہفتاد و دو فریق حسد کے عدد سے ہیں

اپنا ہے یہ طریق کہ باہر حسد سے ہیں

(ذوق)

نہ سنو، گر برا کہے کوئی

نہ کہو، گر برا کرے کوئی

روک لو، گر غلط چلے کوئی

بخش دو، گر خطا کرے کوئی

جو مدّعی بنے اس کے نہ مدّعی بنیے

جو ناسزا کہے اس کو نہ ناسزا کہیے

بحث و جدل بجائے مان، میکدہ جوی کاندران

کس نفس از جمل نزد، کس سخن از فدک نخواست

(غالب)

بحث مباحثے میں نہ پڑ اور مے خانے کا رستہ لے۔ وہاں نہ جنگِ جمل ہے نہ قضیہِ فَدَک۔)

یاد آیا کہ ذوق نے بھی میخانے کی معنویت کو کس خوبی سے آئینہ کیا تھا:

ذوق! جو مدرسے کے بگڑے ہوے ہیں ملّا

ان کو میخانے میں لے آؤ، سنور جائیں گے

خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم

انیس! ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا

ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا

(شیفتہ)

لگے ہاتھوں حالی کی دو رباعیاں بھی سُن لیجیے:

ہندو سے لڑیں نہ گبر سے بیر کریں

شر سے بچیں اور شر کے عوض خیر کریں

جو کہتے ہیں یہ کہ ہے جہنّم دُنیا

وہ آئیں اور اس بہشت کی سیر کریں

فتنے کو فرو کیجے بہ ضبط و تمکیں

زہر اُگلے کوئی تو باتیں کیجے شیریں

غصّہ غصّے کو اور بھڑکاتا ہے

اس عارضے کا علاج بالمثل نہیں

مراد یہ ہے کہ غصّے میں ہومیوپیتھی نہیں چلتی!

میرے نزدیک بڑی تہذیب کا کمال یہ ہے کہ اس سے وابستہ اور اس کے ماننے والے مور کے بدصورت پاؤں دیکھ کر اس کے نہایت خوبصورت رنگوں سے مزیّن پروں اور اس کے وجدآفریں رقص کی نفی نہیں کرتے۔ اقبالؒ نے ”سخنے بہ نژادِ نو“ کے زیرِ عنوان جاوید نامے میں جو شعر کہے تھے ان کا خلاصہ اور زندہِ جاوید پیغام یہ تھا:

حرفِ بد را بر لب آوردن خطاست

کافر و مومن ہمہ خلقِ خداست

آدمیّت احترامِ آدمی

باخبر شو از مقامِ آدمی

بندہِ حق از خدا گیرد طریق

می شود بر کافر و مومن شفیق

کافر اور مومن دونوں سے شفقت اور رحمت کا برتاؤ سنّتِ الٰہیہ ہے اور اقبالؒ کے نزدیک رحمت و رافت کے اسی پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ انسانیت کی بقا مشروط ہے۔ معاصر انسان کو تصادم سے کہیں بڑھ کر باہمی تکلّم کی ضرورت ہے۔ برابری کی سطح پر مکالمے کی احتیاج ہے تاکہ اسے یہ احساس ہو سکے کہ پوری نوعِ انسانی ایک وسیع خانوادے کی حیثیت رکھتی ہے اور اس خانوادے میں نظر آنے والی یہ ساری ثقافتی رنگارنگی اور تہذیبی تنوّع منشائے قدرت ہے۔ معاصر دانشوری کا فرض ہے کہ وہ اس رنگارنگی، اس تنوّع اور اس کثرت میں وحدت کے عناصر کا کھوج لگائے، ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کا احترام کرے اور مذاہبِ عالم میں موجود مشترک عناصر کی نشاندہی کرے۔ اس ضمن میں فلسفے اور علومِ اسلامی کے الجزائری پروفیسر مصطفےٰ شریف کاژاک دریدا (م ۸/اکتوبر ۲۰۰۴ء) کے ساتھ طویل مصاحبہ نہایت قابلِ توجہ ہے جو دریدا کی زندگی کے آخری ایّام میں کیا گیا اور اس کی وفات کے بعد “Islam and the West” کے زیرِ عنوان ۲۰۰۸ء میں شایع ہوا۔ یہ مصاحبہ دریدا کے مذاہب، سیاست اور جمہوریت وغیرہ کے باب میں ایک نئے اور روشن بیانیے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مکالمے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کی متعارف و موجود صورتوں سے بہت نامطمئن اور معاصر تہذیبی آشوب پر سخت دل گرفتہ تھا۔ مصطفےٰ شریف کے ایک سوال کے جواب میں اس نے کس قدر درست کہا ہے کہ اسلام کے بارے میں متحجر یورپی ذہن کی ساخت شکنی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں یونانیوں، یہودیوں اور عربوں کے مزعومہ ثقافتی اختلافات کو بھی، جنھیں بڑی ہوا دی گئی ہے، چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے خیال میں ہسپانیہ وہ نقطہِ اتّصال ہے جہاں یونانی، عربی اور یہودی ثقافتی عناصر ایک امتزاج کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ مصطفےٰ شریف کے خیال میں ردِّتشکیلیت کے سردار و سربراہ کا بھی ایک خواب تھا کہ الجزائر میں، جو خود دریدا کی جائے ولادت تھا، الجزائری اور فرانسیسی باہمی اتحاد و احترام کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ دریدا کے خیال میں جس طرح اسلام کے مظاہر میں تکثیری عناصر ہیں اسی طرح مغرب بھی ایک نہیں بلکہ متعدّد مغرب یعنی “Multiple Wests” وجود رکھتے ہیں جن کا بہ نظرِ عمیق مطالعہ ضروری ہے۔

دریدا کے ساتھ مصطفےٰ شریف کا یہ فکر افروز مصاحبہ بہت سے روایتی استعماری حربوں کی بھی قلعی کھولتا ہے۔ الجزائر پر فرانسیسی استعمار کی حاکمیت سے پہلے دریدا کا خاندان الجزائر ہی میں آباد تھا۔ مصطفےٰ شریف کے اس سوال کے جواب میں کہ آپ عربی زبان، عرب/بربر حقیقت اور الجزائر کی تاریخ کو کس زاویہء نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ دریدا کا جواب یہ تھا کہ چونکہ الجزائر پر فرانسیسی استعمار مسلّط تھا لہٰذا عربی زبان پر پابندی تھی۔ یہ سرکاری اور انتظامی زبان نہ تھی بلکہ ایک غیرملکی زبان کے طور پر مشہور کی جاتی تھی۔ اسے اپنی ہی سرزمین میں محض آپشنل زبان کے طور پر رکھا گیا۔ رہی تاریخ، تو فرانسیسی تاریخ تو پڑھائی جاتی تھی مگر الجزائر کی اپنی تاریخ اور جغرافیے کا ایک لفظ بھی اس نصابِ تعلیم میں شجرِ ممنوعہ تھا۔ بے ساختہ اکبر کا شعر یاد آتا ہے:

تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں، وہ کیا ہے؟ فقط سرکاری ہے

جو عقل سکھائی جاتی ہے، وہ کیا ہے؟ فقط بازاری ہے

غیرمنقسم برِّعظیم میں بھی انگریزی استعمار نے ایسے ہی حربے استعمال کیے تھے۔ دراصل استعمار جہاں بھی جاتا ہے اس کا پہلا ہدف وہاں کی زبان اور ثقافت ہوتی ہے، اور جب رخصت ہو جاتا ہے تو اپنی معنوی اولاد کو یہ ذمّے داری سونپ جاتا ہے!

دریدا اگرچہ مذہبی مفکّر نہیں تھا مگر ایک روشن فکر دانشور ہونے کے ناتے وہ دل سے مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ وہ سچے صاحبِ ایمان کو “Authentic Believer” کا نام دیتا ہے اور بڑے پتے کی بات کہتا ہے کہ صرف سچا ایمان دار ہی —- سچا موسوی، سچا عیسوی، سچا مسلمان ہی (یعنی وہ لوگ جو اپنے مذہبی عقاید کو دل سے مان کر زندگی گزارتے ہیں) —- دوسرے مذاہبِ سماوی کے ماننے والے کے عقاید کی بہتر تفہیم کر سکتا ہے۔ میرے نزدیک تہذیبوں کے مابین بامعنی اور نتیجہ خیز مکالمہ ایسی ہی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے اور موجودہ تہذیبی آشوب میں اس کی اشد ضرورت ہے۔

دریدا کے انھی خیالات کے مماثل پیرایے ہمیں وِل ڈیورنٹ کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ اس کی دانست میں جو مذہب فضایلِ اخلاق پیدا کرے گا اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دے گا وہ ہی اس باہم متحارب عالمی معاشرے میں بہترین تریاق کا حکم رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک نسل، رنگ اور مسالک فطری ہیں اور انسان کے ارتقاء میں مختلف گروہ، ادارے اور افکار عناصرِ محرکہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے خیالات آپ سے مختلف ہیں ان کو سمجھنے اور ان سے حسنِ سلوک کا رویّہ روا رکھا جانا ضروری ہے۔ ڈیورنٹ تاریخ سے گواہی لاتا ہے اور کہتا ہے کہ عدم رواداری ہی دہشت گردی، وحشت اور آمریت کی جانب کھلنے والا دروازہ ہے۔ پھر ایک مقام پر جب وہ بڑی دلسوزی سے انسانی مواخات کا علم بلند کرتے ہوے گویا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے مذاہبِ سماوی کی سچائی بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:

”آزادی میں جڑ پکڑے، ایک ہی الوہی پدر ہونے کے ناتے، ہر جگہ ایک ہی لہو کی وراثت کے امین ہوتے ہوے ہم دوبارہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام انسان بھائی بھائی ہیں اور آزادی کی قیمت باہمی رواداری ہے۔“       (ص۷۶)

تہذیبی برتری، ثقافتی سیادت، تکنیکی مہارت کی معراج کے زعم میں مبتلا اور یک قطبی نظام کے تسلّط کے لیے کوشاں اور آرزومند مغربی طاقتوں کو مغرب ہی کے ان دبنگ دانشوروں کے اس انتباہ پر کان دھرنے چاہییں، جن کا قطعی مؤقف یہ ہے:

“The world is not going to become Western. Neither the West nor the Rest is going to become the world. Diversity is here to stay.”  (Suicide of the West, p.173)

پھر یہی دانشور ایک اور سفّاک حقیقت کا اعلام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل خطرہ عام لوگوں سے نہیں بلکہ آراء سازوں (opinion-setters)، اُن کے افکار، طرزِ اعمال، بے ضمیر سیاستدانوں، خود غرض سربراہانِ تجارت، نامدار مشاہیر اور ان دونوں طرح کے دانشوروں سے ہے جو یا تو الٹرا لبرل ہیں یا جدید قدامت پسند یعنی (neo-conservatives)۔ (ایضاً، ص۱۹۳)

بے اختیار مرحوم اشفاق احمد کا قول یاد آتا ہے۔ کہا کرتے تھے:

”وطنِ عزیز کو اتنا نقصان عام لوگوں نے نہیں پہنچایا جتنا پڑھے لکھوں نے پہنچایا ہے!“

خواتین و حضرات! محبّت میں شفا اور احترام میں آزادی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے جاننے کے لیے کسی بوعلی سینا اور کسی لقمان کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اپنے باطن میں اخلاص سے جھانکنے کی ضرورت ہے۔ محبّت اور احترام ہمیشہ بڑے ادب کے عناصرِ ترکیبی رہے ہیں اور بڑے ادب کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتا۔ یہ تہذیبوں کا فیض یافتہ ہی نہیں، تہذیب گر اور ثقافت ساز بھی ہوتا ہے اور ہمارے اندر بے کنار ہونے کی اُمنگ اور ”ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب؟“ کی خلش پیدا کرتا ہے۔ کیٹس نے کہا تھا: اگر شاعری بے ساختہ آپ کے اندر سے اس طرح نہیں پھوٹتی جیسے درختوں سے پتّے، تو یہ بیکارِ محض ہے۔ میرے نزدیک آپ اس کے دائرے کو وسیع کر کے اس میں دیگر اصناف و آداب، فلسفے، تاریخ اور فنونِ جمیلہ کو بھی شامل کر لیجیے تو تہذیب زیادہ مایہ دار ہو جائے گی اور اس کا وجود مزید توازن اور ترفّع سے ہمکنار ہو جائے گا۔ اس عہدِ حشر آثار میں، جب سائنس اور دیگر علومِ فطرت کی بے مہار تگ و تاز اور بے دریغ اوربے محابا سرپرستی نے اِس دھرتی کے وجود پر ایک بڑا سوالیہ نشان قایم کر دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علوم کے دوش بدوش علومِ انسانی کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ زندگی کی اعلیٰ قدروں: محبت، رواداری اور احترامِ انسانیت کو پورے قد سے کھڑے ہونا نصیب ہو اور ہم ڈولفن کی پشت پر سوار شیکسپیئر کی جل پری کی ان مسحور کُن آسمانی آوازوں پر کان دھر سکیں جنھیں سن کر سمندر کا پُرشور اور آشفتہ سر پانی بھی ساکت ہو جاتا ہے!

کیا ہمارا موجودہ تہذیبی ”ویسٹ لینڈ“ ایسے بہشتی لحن کے سننے کا متمنّی اور متحمّل ہو سکتا ہے؟

۸/مئی ۲۰۱۶ء