زنجیر

یہ تحریر 464 مرتبہ دیکھی گئی

بارش کے پانی سے لت پت سڑک کے کنارے لوہے کے پنجروں میں مقید، آزادی کے خواہشمند، پنچھی فٹ پاتھ پر چلنے والی خاک کو دیکھ دیکھ کر مدد پکار رہے تھے۔ لوگ پرندوں کی پکار کو خوشی کا ترانہ سمجھ کر محظوظ ہوتے ہوئے چپ چاپ گزر رہے تھے۔ مگر کسی بھی آدمِ خاکی کو پرندوں کی آہ و بکا میں پوشیدہ درد محسوس نہیں ہو رہا اور پرندوں کی آزادی کی تمنا انہیں پریشان نہیں کر رہی تھی۔نعمان، کشادہ پیشانی اور بڑی بڑی آنکھوں کا حامل بارعب شخص جو احمد آباد کا زمیندار تھا اور پورے علاقے میں زمیندار صاحب کے نام سے مشہور تھا، کے چار بیٹے تھے اور دنیا کی ہر نعمت، سوائے بیٹی ایسی نعمت کے، اسے میسر تھی۔ اس کی آرزو تھی کہ اس کی بھی ایک بیٹی ہوتی، جو اسے بابا بابا کہہ کر پکارتی اور وہ ”میری بیٹی“، ”میری پری“ کہہ کر لاڈ کرتا۔ اس نے بیٹی ایسی نعمت کے حصول کی غرض سے کئی پیروں فقیروں کے در کھٹکھٹائے اور کئی درگاہوں کے سفر میں جوتیاں گھسا ڈالیں مگر طویل عرصہ تک مراد مراد ہی رہی اور کوئی بھی دعا پُر تاثیر ثابت نہ ہوئی۔آخر اس کی کوششیں بار آور ہوئیں اور درویش کی دعا سے آرزو تکمیل ہوئی۔ خداوند کریم نے نعمان کو بیٹی ایسی نعمت سے نوازا۔ وہ جب اپنی بیٹی کو گود میں اٹھاتا اور اس سے لاڈ پیار کرتا تو نہ صرف اپنی قسمت پر نازاں بلکہ خدا کا شکر بھی ادا کرتا۔ اس کے بیٹے بھی اپنی بہن سے بے حد پیار کرتے اور اسے ذرا سی تکلیف ہونے پر بلبلا اٹھتے۔ ننھی جان کا نام آرزو رکھا گیا کیونکہ وہ والدین اور بھائیوں کی آرزو تھی۔ اور آرزو بھی وہ جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے ماتھے گھیسا ڈالے تھے اور ہر در کھٹکھٹایا تھا۔دس سال کی عمر تک آرزو، سانولی رنگت، معمولی نین نقش کی حامل تندرست لڑکی، کی ہر تمنا پوری کی جاتی رہی، اس کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ والدین اور بھائیوں کے لئے حرف آخر ہوتا۔ تعلیم کا سلسلہ گھر پر ہی جاری رکھا گیا اور استانی صاحب باقاعدہ آرزو کے گھر آ کر اسے تعلیم دیتی رہی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد کچھ سال گاؤں کے سکول میں بھی اسے بھیجا جاتا رہا۔ مگر جوں جوں آرزو بڑی ہوتی گئی اس کی دنیا تنگ اور خواہشیں وسیع ہوتی گئیں۔ دن گزرتے گئے، آرزو کی تمنائیں لفظ تکمیل سے نا آشنا ہونا شروع ہوئیں اور پابندیاں بڑھتی گئیں۔ سولہ کے عدد کو پہنچتے ہی نہ صرف اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا گیا بلکہ گھر کی چوکھٹ سے باہر قدم رکھنے سے بھی روک دیا گیا۔ جب آرزو نے اپنے باپ نعمان سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے شہر جانا چاہتی ہے، تو نعمان، جو خاندانی روایات کا غلام تھا، نے یوں جواب دیتے ہوئے انکار کر دیا:”بیٹی گھر کی عزت ہوتی ہے۔ عزت در و دیوار کے اندر ہی رہے تو اچھا ہے، اگر دہلیز تک پہنچ جائے تو وہ عزت نہیں رہتی بلکہ ماتھے کا کلنک بن جایا کرتی ہے۔ اور ماتھے کے کلنک کو ہمیشہ مٹایا جاتا رہا ہے۔“انکار سن کر آرزو خاموش ہو گئی۔آئے دن آرزو کی کوئی نہ کوئی خواہش قتل کر دی جاتی مگر وہ عزت کی دیوی دم سادھے پڑی رہتی ہے۔ اٹھارہ سال کو پہنچتے ہی اس کی شادی کے متعلق چی منگویاں ہونا شروع ہوئیں۔ آرزو کی منگنی، بغیر اس کی اجازت کے، ہمسائے گاوں کے زمیندار کے بیٹے سے کر دی گئی۔ جب آرزو کو خبر ہوئی تو اس کے اندر، حاصل کی گئی تعلیم کے باعث، حقوق کے حصول کا جذبہ جاگ اٹھا۔ اس نے ہمت کر کے اپنی ماں سے کہا کہ وہ کسی ایسے شخص سے شادی نہیں کر سکتی جسے وہ جانتی تک نہیں۔ اس کی ماں، لاچار عورت جسے گھر میں وہی مقام حاصل تھا جو شہروں میں کام کرنے والی ماسی کو حاصل ہوتا ہے، نے ڈرتے ڈرتے نعمان کے سامنے آرزو کی تمنا کا تذکرہ کر دیا۔یہ بات سن کر نعمان بھڑک اٹھا۔ یہ بات اس کی خاندانی روایات اور رسم و رواج کے خلاف تھی۔ آج تک اس خاندان کی کسی بھی لڑکی نے والدین کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہ کی تھی بلکہ ہنس کر باپ کی خاندانی روایات کی دیوی کی شان کی خاطر بلی چڑھ جایا کرتی تھی۔ آرزو کا اپنے حق کی خاطر آواز اٹھانا خاندانی روایات سے بغاوت کے مترادف تھا۔ اور خاندانی روایات سے بغاوت نعمان کے ہاں جرم عظیم سے کسی صورت بھی کم نہ تھی۔ باپ نے قسم کھائی کہ آج کے بعد آرزو کی شادی کی بات نہیں ہوگی اور وہ تمام عمر بھائیوں کی چوکھٹ پر پڑی سڑتی رہے گی۔سال گزرتے گئے، نعمان کی موت ہوگئی، تمام بھائیوں کی شادیاں ہوئیں اور وہ صاحب اولاد ہو گئے۔ مگر آرزو کی تمنا کا کسی کو خیال تک نہ آیا۔آرزو، خاندانی روایات کے درودیوار میں مقید، بھائیوں کی چوکھٹ پر پڑی، رسم و رواج کی زنجیر سے آزادی کی تمنا کے لمس کو دل میں سلگائے سڑک کنارے پنجروں میں مقید پرندوں کی ماند، مدد مدد پکار رہی ہے، مگر وہاں ایسا کوئی نہیں جو اس کی آہ و پکار سن سکے، کوئی نہیں کوئی نہیں۔