زاہدِ خُشک ہوں دُنیا میں، نہ پُوچھو مُجھ کو

یہ تحریر 2762 مرتبہ دیکھی گئی

یہ دُنیا نہ خوبصورت ہے، نہ بد صورت

سارے لوگ نہ خوش ہیں، نہ اُداس

جو لوگ ابھی زندہ ہیں، اُن میں سے اکثر مر چُکے ہیں

جو لوگ مر چُکے ہیں، اُن میں سے کُچھ ابھی زندہ ہیں

یادیں اور موسم

بار بار واپس آتے ہیں

ایک ہی عورت

کبھی خوشی بن جاتی ہے، کبھی اذیت!

یہ کیا نظم ہوئی بھلا؟ یہ کس قسم کی شاعری ہے؟ روزمرہ کی گفتگو یا خودکلامی، ہیئت سے عاری، پھیکی اور بے کیف۔ مگر اس نظم کا شاعر، زاہد ڈار، خود بھی تو ایسا ہی ہے۔ اپنی نظموں کی طرح سیدھا، روکھا پھیکا، اُفتادہ جو، لاچار، اُداس، خاموش، لاپروا اور بقول انتظار حُسین “روسی ادیب Ivan Goncharov کے کردار Oblomov کی مانند ازلی سُست الوجود”، اور میرے خیال میں بے انتہا فوٹوجینک۔

“معاف کرنا، مینوں کُڑیاں دے نٙاں بُھل جاندے نیں۔ پہلوں یاد سٙن تے کاغذ تے لِکھ لینداں ساں۔ ہُن او کاغذ وی گواچ گیا اے۔ توانوں یاد اے ایس کُڑی دا نٙاں جیہڑی سامنے میز تے بیٹھی اے؟”

ریڈنگز کافی شاپ پر بے دھڑک سپاٹ لہجے میں زاہد ڈار کا مُجھ سے یہ اولین مکالمہ تھا۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔

“پہلوں کُڑیاں میرے کول بہہ جاندیاں سٙن۔ ہُن دور بیہندیاں نیں۔ توانوں او کُڑی دا نٙاں یاد اے جیہڑی آکھدی سی او میرے نال مُحبت کردی اے؟”

میری فرمائش پر حسنین جمال نے “درد کا شہر” اپنی لائبریری سے لا کر میرے ہاتھ تھمائی تو زاہد ڈار سے پکی دوستی ہو گئی اور میں نے پہلی بار اُن کی نظموں کو پڑھنا شروع کیا۔ قریب تمام نظموں میں مبہم خدوخال والی کوئی عورت موجود تھی، جس کو کھوجنے کی کوشش کرتا تو فوراً لفظوں کی اوٹ میں چُھپ جاتی۔

جانے کس خواب میں، کس خواب نے، کس خواب کو دیکھا ہو گا

لوگ جس وہم میں ہیں، میں بھی ہوں

ایک عورت کا خیال ۔ ۔ ۔

اور

میں انسانوں سے نفرت نہیں کرتا

میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں

یا پِھر

میں نے ایک عورت کو آسمان پر اُڑتے ہوئے دیکھا ہے

کیا تم نے بھی کُچھ دیکھا ہے

اور

حقیقت سے بے خبر غافل

ایک عورت کے خیال میں کھویا ہوا

مُحبت کے طویل اور اذیت ناک خواب میں مُبتلا

یہ اور ان جیسی باقی نظمیں کسی انقلابی نصب العین کی داعی نہ تھیں- نہ ان میں شاعر کی ذات کی ناقدری کا گھاؤ تھا، نہ شاعر سیاسی و ثقافتی انتشار کے خلاف نبرد آزما تھا۔ نہ ہی کسی نظریے کی آڑ میں کُچھ تعمیر یا مُنہدم کرنے کا درپے۔ “درد کا شہر” اور “مُحبت اور مایوسی کی نظمیں” پڑھنے کے بعد زاہد ڈار مُجھے ایک کم سِن لڑکے جیسا لگا جو کسی بھرپور جواں سال عورت کے ساتھ والہانہ جنسی اختلاط کا خواہاں تھا، چاہے اس کا نتیجہ کُچھ بھی ہو۔ یہ ادھوری خواہش اور اس سے پُھوٹتی جنسی ناآسودگی زاہد ڈار کی شاعرانہ لہر کا مرکز تھی۔

“عورت کا برہنہ بدن میرے لیے خُدا ہے”۔ برسات کی شام، جو درد کی ہر شام کا تسلسل تھی، زاہد ڈار کافی شاپ میں پیالی کو گھورتے ہوے کہہ رہا تھا۔ “نہ میں خُدا کو دیکھ پایا، نہ کسی برہنہ عورت کو۔ تم مانو گے، میں کسی عورت کو چھو کر اُس کے ساتھ مُحبت نہیں کر سکا!”

مُجھے مسجد کے گُنبد لڑکیوں کی چھاتیاں معلوم ہوتے ہیں

درختوں کی لچکتی ٹہنیاں، باہیں

مُجھے ہر اِک جگہ پر لڑکیاں ہی یاد آتیں ہیں

“تم اسے ایک بیمار آدمی کی شاعری کہہ سکتے ہو۔ میں نے اپنی پہلی ڈائری کا عنوان بھی “ایک بیمار لڑکے کی ڈائری” رکھا تھا. دستوئیفسکی کا Notes from Underground مُجھے پہلے فقرے ‘میں ایک بیمار آدمی ہوں’ کی وجہ سے ہی پسند ہے۔ ویسے تو مُجھے لگتا ہے اُس نے ‘ایڈیٹ’ بھی مُجھ پر ہی لِکھا ہے”۔

رحمِ مادر سے نکلنا میرا بے سود ہوا

آج بھی قید ہوں میں

خواہشِ ناتمام کے اسیر زاہد ڈار کی بے انت ویسٹ لینڈ میں ایک دُھندلی سی عورت کے لمحاتی ظہور سے کبھی کبھار دھنک پھیلتی تو ہے لیکن اُس کے ہاتھ بڑھا کر چھو لینے سے قبل ہی وہ عورت فضا میں تحلیل ہو کر کرب کا استعارہ بن جاتی ہے۔ اس کی شاعری رومانیت سے جنسیت کی جانب سفر میں محبوب تک عدم رسائی کا نوحہ ہے:

اک نظر دیکھا اور ہجوم میں غائب ہو گئی

کیا میں اس لیے یہاں آیا تھا

کہ اُس کی یاد لے کر بیٹھا رہوں،

روتا رہوں اور مرتا رہوں

اس بے بسی کا حل بھی وہ عورت سے ہی چاہتا ہے:

کرب میں، تنہائی میں

کس کا اب ڈھونڈیں سہارا،

کس کی اب مانگیں پناہ،

کون سی ہے ذات جس کی ذات میں

اپنی ہستی کو ڈبو کر روح کو اونچا کریں،

روشنی پائیں کہاں

تم ہی بتلاؤ ذرا، اے لڑکیو!

تم ہی بتلاؤ ذرا، اے لڑکیو!

رائیگانی کا ادراک زاہد ڈار کو موت کے بارے میں سوچنے پر اُکساتا ہے۔ لیکن زاہد ڈار کا موت سے لگاؤ صوفیانہ نہیں بلکہ خالصتاً شعوری ہے۔ ایرانی شاعر احمد شاملو کہتے ہیں:

من مرگ را

سرودی کردم

(میں نے موت کو گیت بنا دیا)

احمد شاملو کی طرح زاہد ڈار بھی موت کا خیر مقدم کرتا نظر آتا ہے:

موت میرے لیے نئی نہیں ہے

میں ہمیشہ مرتا رہا ہوں

اور

زندگی میری دھوئیں کی صورت

پھیلتی اور بکھر جاتی ہے

پھر ہوا وقت کے ہاتھوں میں ہے تلوار کی مانند رواں

پھر میں مرتا ہوں فقط موت مجھے بھاتی ہے

موت زاہد ڈار کے نذدیک اپنی گُم گشتہ محبوبہ کو پا لینے کا امکان بھی ہے:

بہتے پانی سے اُدھر دور جہاں

ایک وادی ہے جو ویران بھی، خاموش بھی ہے

ایک دیوی نے وہاں گھاس اُگا رکھی ہے

ریڈنگز کافی شاپ میں زاہد ڈار سے میں قریب روز ہی ملتا ہوں۔ میں نے اُن کی بے شمار تصویریں بنائی، باتیں سُنیں اور سُنائیں۔ مُجھے زاہد ڈار میں راشد کی نظم “رقص” کا ہیرو نظر آتا ہے جو “زندگی سے بھاگ کر” موت کی آغوش میں اس ایک بوسے کا متمنی ہے جس سے وہ تمام عمر محروم رہا۔