روح و رواں

یہ تحریر 106 مرتبہ دیکھی گئی

یہ لفظ کہاں سے آیا 8

روح و رواں

یہ ترکیب عام طور پر روحِ رواں لکھی جاتی ہے، جیسے فلاں شحص محفل کی روحِ رواں تھا۔
لیکن یہ درست نہیں ہے۔ اصل ترکیب روح و رواں ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ روحِ رواں کے معنی تو چلو یہ بنتے ہیں کہ رواں یا متحرک روح، لیکن روح و رواں کا مطلب کیا ہوا؟
اصل میں یہاں رواں کا مطلب جاری یا متحرک نہیں ہے، بلکہ رواں کا مطلب بھی روح یا جان ہی ہے! اردو کی سب سے مستند لغت پلیٹس نے اس کے معنی دیے ہیں:
The rational soul; soul, spirit, life.
اسی معنی کی سند کے لیے لغتِ کبیر میں یہ شعر درج ہے:
شریعت کا روح اور طریقت کی جاں
حقیقت کا جیو، معرفت کی رواں
یہ تو پتہ چل گیا کہ رواں کا مطلب جاری کے ساتھ ساتھ روح بھی ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں لفظوں کا ماخذ ایک ہی ہے۔ تمام انڈویوروپین زبانوں کی پرنانی یعنی پی آئی ای میں ایک مادہ تھا Hraw، اور اس کا مطلب تھا بہنا۔ یہی مادہ بعد میں اوستا میں ’اروان‘ بنا اور وہاں سے ہوتا ہوا جدید فارسی میں روان میں ڈھل گیا۔ روانی کے ساتھ ساتھ اس کا ایک ضمنی مطلب روح بھی بن گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو گی کہ تصور یہ تھا کہ روح بھی ’روانہ‘ ہو جاتی ہے، یعنی مرنے کے بعد بدن سے سفر کر کے عالمِ ارواح میں چلی جاتی ہے، یا کسی دوسرے بدن میں حلول کر جاتی ہے، وغیرہ۔
آج کی فارسی میں ماہرِ نفسیات کو روان شناس کہا جاتا ہے۔
اسی مادے Hraw نے دوسری زبانوں میں بھی بڑے گل کھلائے ہیں۔ یونانی میں rheo بہنے کے معنی دیتا ہے اور انگریزی لفظوں Rhythm اور Rheumatism اور Diarrhea جیسے لفظوں میں موجود ہے۔ جرمینک زبانوں میں Hraw کے آگے ایس بھی لگ گیا، چانچہ انگریزی میں stream اسی کی اولاد ہے۔
سنسکرت بھی بچ نہیں سکی۔ یہاں سرسوتی کا ماخذ स्रवति ہے جس کا مطلب ہے، ’وہ جو بہتی ہے۔
چلیں رواں کا مسئلہ تو حل ہو گیا، اب آپ پوچھیں گے کہ روح و رواں کہنے کی کیا ضرورت ہے جب دونوں کا مطلب ایک ہی ہے؟
اصل میں اردو زبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے ہم معنی الفاظ کی تکرار کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں:
بلند و بالا، حسین و جمیل، ناز و ادا، ظلم و ستم، ذلیل و خوار، مشہور و معروف، انتظام و انصرام، عجز و انکسار، نحیف و نزار، بخیر و عافیت۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ان تمام ترکیبوں میں شامل دونوں الفاظ کے معنی بالکل ایک ہیں اور اگر ایک کو نکال بھی دیں تب بھی مطلب برقرار رہے گا، البتہ زورِ کلام میں کمی واقع ہو جائے گی۔
یہی حال روح و رواں کا ہے، دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے: روح۔

(نوٹ: اگر کوئی ستم ظریف اس پوسٹ کو ہالووین سے جوڑنا چاہے تو اپنی ذمہ داری پر ایسا کرے، ادارہ ہرگز متفق نہ ہو گا)