روایت کا ایک ترجمان: رینے گینوں

یہ تحریر 740 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

گینوں کے خیال میں ”علامتیت عام زبان کی نسبت اظہار و ابلاغ کے کہیں وسیع تر وسائل اختیار کرتی ہے کیوں کہ یہ اظہار سے کہیں زیادہ ایما سے کام لیتی ہے، یہ وہ مدد بہم پہنچاتی ہے جسے احسن ترین انداز میں تصور کے ایسے امکانات میں ڈھالا جاسکتا ہے جو الفاظ کی قوت سے ماورا ہوتے ہیں۔ البتہ ان افسوس ناک تلازمات سے کہیں الگ جو قدیم ترین آفاقی علائم کثیر تعداد میں ہمارے لیے رکھتے ہیں، جنھیں مغربیوں کی معتدبہٖ اکثریت علائم یا (حقیقی تشبیہات) کی زبان میں سمجھنے سے قاصر ہے، کچھ تو اس وجہ سے کہ ہماری تعلیم اور ہمارے عہد کے عمومی فکری میلان نے ہمارے ذہنوں کو مشروط و محدود کر کے ایک دوسرے ہی ڈھرّے پر کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور کچھ اس وجہ سے کہ بہت سوں کو سرے سے اس کا شعور ہی نہیں کہ لفظِ علامت کا فی نفسہٖ مطلب کیا ہے بلکہ اور تو اور وہ تو علائم کو ”رواجی نشانات“ سے گڈمڈ کر دیتے ہیں۔ اب جہاں تک علامت کا تعلق ہے، عام طور سے اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک مرتبہء وجود کی ایسی حقیقت ہے جو حقیقت کے دوسرے اعلیٰ مرتبہء وجود سے مطابقت رکھتی ہے (اور یوں اس میں شریک ہوتی ہے)، یوں سچی علامتیت اشیا کی فطرت میں مضمر ہوتی ہے اور کسی الوہی یا اصلی Principal مرتبہء وجود کے سلسلے کی مخصوص حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے کسی مخصوص علامت کا استعمال، کسی بھی صورت میں انتخاب کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں یا فلاں شے کسی صفتِ الٰہیہ کی علامت ہے تو ہمارا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ نوعِ انسانی کی ایک تعداد نے کسی ایک موقع پر اس شے کو محولہ بالا صفت کے طور پر ظاہر کرنے پر اتفاق کر لیا تھا (جس طرح الجبریائی مساوات کے نقطۂ نظر سے × = ۰۱ ہے) بلکہ یہ ہوتا ہے کہ یہ شئے مخصوص اس الٰہی صفت کی براہِ راست (اگرچہ محدود) مظہر ہے اور اسے فکر و تدبر کے لیے ایک ٹھوس سہارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہم اس کے مافوق اعیان کے وقوف تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پس  ہمیں دو عام غلطیوں سے بچنا ہو گا، اول تو یہ کہ علامت کو اس شے کا متبادل سمجھ لینا جس کے لیے یہ علامت وضع کی گئی جیسا کہ ہم ان لوگوں کو جو سورج کو الوہی قوت کی علامت سمجھتے ہیں، ”شمس پرست“ کہنے لگتے ہیں (دانتے نے کہا تھا کہ کوئی بھی شئے محسوس اس اعزاز کی سورج سے زیادہ اہل نہیں کہ اسے ”خدا آثار“ بنا دیا جائے)، دوسرے یہ فرض کر لینا کہ علامت اور جس شے کے لیے وہ علامت بنتی ہے، ان دونوں کے درمیان کوئی حقیقی اور معروضی تعلق نہیں۔

اِس نہایت ضروری موضوع کی طرف راجع ہونابہت ضروری ہو گا مگر سردست اس سلسلے میں کافی کچھ کہہ دیا گیا ہے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ اُن علامتوں کی ذیل میں گینوں کا رویہ کیا ہے جن میں روایت قدیمہ اپنا ظہور کرتی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ روایت ہے کیا اور اس بات کا کیا ثبوت کہ یہ کبھی موجود بھی تھی؟ بذاتِ خود گینوں ضروری خیال نہیں کرتا کہ اس سوال پر کسی بحث کی گنجائش ہے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ یہ موقع کسی ایسی بحث میں پڑنے کا نہیں، البتہ یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ بشریات کے ماہرین نے دنیا کے مختلف حصوں اور نسلوں کے درمیان، جن کے آپس میں کسی قسم کے ربط و تعلق کا حال معلوم نہیں، ان مماثل علائم کے وجود کا کھوج لگانے کے لیے بڑی جانکاہ کوششیں کی ہیں، جنھیں مماثل صورتوں میں استعمال کیا جاتا تھا ___ ان شعائر کی شکل میں ___ جن کو استعمال کرنے والے ان کی معنویت کو فراموش کر بیٹھے ہیں ___ اور اقوام عتیقہ کے عقائد میں پائے جانے والے  بعض اُن عناصر کی شکل میں، جن سے ان کی آج کی ثقافتی سطح پر زندگی کرنے کے مقابلے میں ارفع تر ثقافتی سطح کا احساس ہوتا ہے۔

ان حقائق کو جدید ارتقاء کے آسیب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دو وضاحتیں کی گئی ہیں، بعض لکھنے والوں نے جن میں ڈبلیو۔ جے۔ پیری غالباً سب سے زیادہ معروف ہے، یہ دعویٰ کیا ہے ان اساطیر و علائم نے اپنی اصل میں مصر سے ظہور کیا اور یہ کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مصری تہذیب پوری دنیا میں پھیل گئی اور جب یہ پسپائی کے عمل سے دو چار ہوئی تو اپنے پیچھے یہ ”نشانات“ چھوڑ گئی۔ لیکن یہ نظریہ کڑی جانچ پڑتال کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ اسے اکثر لوگ مانتے ہیں لیکن اس کے دعویداروں نے بالکل بے سوچے سمجھے ایک آفاقی  انسانی روایت کا وجود ثابت کرنے کے لیے شواہد کے ڈھیر کے ڈھیر لگا دیے (اس ضمن میں ڈبلیو جے پیری کی ”The Primordial Ocean“ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے) اس سلسلے کی دوسری وضاحت اس نظریے پر مبنی ہے کہ چوں کہ دنیا میں ہر کہیں نوع انسانی ایک دوسرے سے شدت سے مماثل ہے، چوں کہ ان کے دماغ ایک ہی طرح کی ساخت کے ہیں اور ابتدائی حالتوں میں دنیا کے ایک حصے کے رہنے والوں کا دوسرے حصے کے رہنے والوں سے زندگی کے بارے میں تجربہ زیادہ مختلف نہیں رہا اس لیے زندگی کے مبداء اور کائنات کی نوعیت کے بارے میں مماثل خیالات بڑی آزادی سے اُبھر آتے ہیں۔ تاہم اس نظریے کے پاس اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ روایت کے بندھنوں کے کم زور پڑتے ہی انسانی اذہان مماثل نہج پر کام کرنے میں واضح طور پر ناکام کیوں ہو جاتے ہیں اور نہ ہی یہ اس اتقان Precision کے سلسلے میں کوئی جواب مہیا کرتا ہے جس کے ساتھ یہ علائم استعمال کیے جاتے ہیں۔ چناں چہ بہت سی سہل اور غیر حقیقی سائنسی توجیہات کی طرح یہ نظریہ بھی سوال زیادہ اُٹھاتا ہے، جواب بہت کم دیتا ہے۔

بہرحال گینوں کسی بھی صورت میں، کسی شخص کو بھی یہ ترغیب دلانے میں دل چسپی نہیں رکھتا کہ وہ اس کے پیش کردہ دعاوی سے اپنی مرضی کے خلاف اتفاق کرے۔ اسے یقین ہے کہ ایک آفاقی روایت اپنا وجود رکھتی ہے جو زمان کے موجودہ دائرے کے آغاز میں انسان پر منکشف کی گئی جو فی الواقع انسانی ذہن میں خلقی طور پر موجود ہے لیکن جو نوع انسانی کی موجودہ نسل تک پہنچتے پہنچتے جزوی طور پر کھو گئی۔ لیکن گینوں کا بنیادی مسئلہ اس روایت کی تفصیلی ہئیتوں اور ان کی تاریخ زوال سے اتنا متعلق نہیں جتنا اس کے جوہر سے ___ اس پوتر اور غیر مبدل علم سے جس کا حصول اگرچہ آج کے دور میں بمقابلہ اس وقت کے جب زمانہ اپنے شباب پر تھا، زیادہ مشکل ہے، تاہم روایتی اصولوں کے توسط سے ان تک اب بھی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ گینوں کا خیال ہے کہ جس شے کو وہ مابعد الطبیعیاتی علم کہتا ہے وہ چوں کہ ایک مستقل اور ناقابلِ تغیر ایقان ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے اس اقلیم میں کسی بحث یا دلیل بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ اپنے معاصرین کو اس بات کا یقین دلا دینا کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو خاص اپنی فطرت کے لحاظ سے ناقابلِ بحث ہیں، نہایت مشکل کام ہے۔ جدید انسان خود کو حق کی سطح تک بلند کرنے کے بجائے اسے اپنی سطح پر گھسیٹ لانے کی کوشش کرتاہے۔ یہ تو ہمیشہ ممکن ہے کہ ذاتی رائے کی حدود میں رہتے ہوئے بحث مباحثے برپا کیے جائیں۔ کیوں کہ سلسلہئ بحث ایک فکری درجے سے آگے نہیں جاتا اور جب کسی اصول ارفع تک رجوع کرنے کی ضرورت نہ ہو تو ایسی صورت میں ایک مسئلے کے دونوں پہلوؤں پر کم و بیش ٹھوس دلائل مہیا کیے جاسکتے ہیں لیکن جونہی ہمارا تعلق اصولِ اولیہ کے ادراک اور اس آفاقی حقیقت کے شعور سے جڑ جائے جو ہر شخص کے لیے جو اسے صدقِ دل سے جانتا ہے، بالکل ایک اور صرف ایک ہے تو پھر انسانی اصطلاحات میں بحث کرنے کو کچھ نہیں بچتا اور تمام قیل و قال کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔

ہم ہندو عقائد کے سلسلے میں پیچھے کہیں دیکھ آئے ہیں (۵) کہ روایتی طور پر انسان کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ اس بلاواسطہ وجدانی علم پر متصرف ہو سکتا ہے یا اس تک رسائی حاصل کرنے کی قوت حاصل کر سکتا ہے جو انفرادی فطرت کے حوادث اور حدود سے آزاد ہوتا ہے، جو اپنے دوش بدوش ایک ایسا بلاواسطہ یقین لے کر چلتا ہے جو کوئی دوسرا علم اسے مہیا نہیں کر سکتا۔ دنیاے جدید میں ہم ”فکری ارتقا“ جیسی اصطلاحات کی نہج پر سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جس سے ہمارا مفہوم افکار میں ”ترقی“ ہوتا ہے جو لوگ باگ ماہئیت اشیا کی ذیل میں کرتے ہیں جب کہ روایتی علم کے زاویہئ نگاہ سے کسی قسم کے ارتقاء کا امکان نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ جب تک مخصوص افراد جہالت سے چلتے ہوئے سوچے بھالے فکری علم تک اور عقل سے پیش رفت کرتے ہوئے بلاواسطہ وجدانی علم تک نہ پہنچ جائیں۔ اس پیش رفت کی آخری منزل (جسے گینوں مابعدالطبیعیاتی علم کہتا ہے کیوں کہ یہ فطرت کے حدود سے ماورا شے ہے) کی تعریف ممکن نہیں کیوں کہ یہ اپنے جوہر اصلی میں علم آفاقی ہے اور تعریف اس شے کو محدود کر دے گی جو فی الاصل لامحدود ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی درجے میں وہ چیز ہے جو اپنے وجود کے لیے عقلی دلائل و نظائر کی محتاج ہے۔ ”جب کوئی شخص ریاضیاتی تیقن سے بھی بڑھے ہوئے ایقان کے ساتھ یہ بات جانتا ہے کہ اشیاء جو ہیں اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتیں تو ایسی صورت میں وہ منطقی نتیجے کے طور پر تجربے سے بے زار اور متنفر ہو جاتا ہے کیوں کہ کسی خاص امر کی توثیق سے کوئی بھی شے پہلے سے زیادہ یا پہلے سے مختلف ثابت نہیں ہو جاتی سوائے اس خاص امر کے محض موجود ہونے کے۔“

مابعدالطبیعیات میں کسی قسم کی ”دریافتوں“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں جو کچھ جانا جاسکتا ہے اس کا علم بعض شخصیتوں کو ہر زمانے اور ہر لمحے میں حاصل رہا ہے لیکن ان کا یہ علم ریاضیاتی کلیے کی طرح منتقل نہیں کیا جاسکتا، ہاں اس میں صرف وہی لوگ شرکت کر سکتے ہیں جو ان شخصیتوں کے نقش قدم پر چل سکتے تھے اور ان کی کاوشوں کی اتباع کا حوصلہ رکھتے تھے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس اصلاً ناقابل اظہار علم کا جو بھی حصہ قابل بیان ہے وہ وقتاً فوقتاً مختلف شکلوں میں ظاہر ہو چکا ہے، چوں کہ ”حق“ فی ذاتہٖ ہر اس قسم کے اظہار سے جو اس کے لیے تلاش کیا جاسکتا ہے، ماورا ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مکمل تشکیل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اس سلسلے کا ہر سانچہ غیر موزوں ہوتا ہے (اس لیے کہ مخصوص سانچہ ”آفاقی قدر“ کی نوعیت کے مکمل اظہار پر قادر نہیں ہوتا) اور یہ تمام سانچے، اگر ان کا خالص لفظی مطلب لیا جائے (جیساکہ ایک رہنما کھمبا سفر کے اختتام کا اشاریہ فرض کر لیا جائے)، گمراہی کا موجب ہوتے ہیں۔ ہر وہ کلیہ جو اپنے حدود میں درست ہو اور جسے وقت اور موقع کے مطابق ڈھالا جاسکے، وہ فکر و تدبر کے لیے ایک سہارا مہیا کر سکتا ہے ___ ایک ایسی شے کی تفہیم کے لیے ایک مددگار جسے فی نفسہٖ کسی کُلیے، علامت یا فلسفیانہ نظام میں محدود و ملفوف نہیں کیا جاسکتا اور ایسے ہی کلیوں اور تشریحات کے ممکنہ نقائص کی وجہ سے بحث مباحثے کا موقع پیدا ہوتا ہے۔

ہر وہ شے جس کا تعلق مابعدالطبیعیاتی علم کے درجے سے ہو، ہمارے اذہان اور تخیلات کے اتفاقات اور محدودتیوں سے ماورا ہوتی ہے اور یوں ایک واقعی لامحدود اُفق کے دروا کر دیتی ہے۔ گینوں ایک انوکھے جوش کے عالم میں کہتا ہے کہ زیر بحث اشیا اپنی نوعیت کی نہایت غیر معمولی موجود اشیا ہیں اور ان کے مقابل میں ہر دوسری شے محض بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔ یہاں ہم علم کے سلسلے میں بات صرف تمثیل ہی کے ذریعے چلا سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اس مکمل آگہی کا نام ہے جس سے متعلق زندگی کے تجربے کے مہیا کردہ تمام تفضیلاتِ کلّی، غیر موزوں ہیں، اس کے دائرے میں تو جاننے اور ہونے، لطف لینے اور متصرف ہونے کا مطلب ایک ہی ہے اور وہ شخص جس نے اس وقوف میں مشارکت کی ہے، صداقت کو چیلنج نہیں کر سکتا کیوں کہ ایسا کرنا ایسے ہی ہے جیسے وہ سورج کی روشنی میں کھڑا ہونے کے باوجود سورج کی چمک دمک کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہو جائے۔ جاری ہے۔۔۔۔۔