رنگ رفتہ ہوں مگر آج بھی تصویر میں ہوں

یہ تحریر 2868 مرتبہ دیکھی گئی

ستمبر1971 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریبی قصبے گوجرہ کے عوامی فوٹو سٹوڈیو میں جب یہ تصویر بنائی گئی تو میری عُمر چار برس سے کُچھ ماہ اوپر تھی۔ میرے والدین لائل پور میں مُقیم تھے۔ ریڈیو پر بین الاقوامی خبر رساں ادارے ایک عرصے سے مشرقی پاکستان میں ابتر ہوتے حالات کے اشارے دے رہے تھے جبکہ یحیی’ شاہی کارندے ایسی ہر خبر کو افواہ قرار دے کر ہتک آمیز انداز میں رد کرنے میں مصروف تھے۔ سرکاری ٹیلی وژن اور اخبارات فتح کی گونج سے تھرّا رہے تھے لیکن لوگوں کے چہروں پر مایوسی اورغم کی پرچھائیاں واضع دیکھی جا سکتی تھیں۔ قومی نشریات پر نافذ قدغن کے سبب حقیقت کسی پر واضع نہ تھی۔

ہمارے علاقے میں فوج تو کم تھی مگر پھر بھی کرفیو کا سا سماں رہتا۔ لوگ مخصوص اوقات کے علاوہ گھروں سے کم ہی نکلتے۔ فضائی حملے کے پیش نظر روشنیاں سر شام گُل کروا دی جاتیں۔ اشد ضرورت کے وقت باہر کی طرف کھُلنے والی کھڑکیوں پر بھاری چادریں تان کر دھیمی لَو پر لالٹین جلائی جاتی۔ دِن یا رات میں کسی وقت انتباہی سائرن گونجتے تو ہم بچوں کے مُنہ میں کپڑا ٹھونس کر تہ خانے میں بھیج دِیا جاتا۔ ناک کے ذریعے سانس لینے کی مشق بار بار کروائی جاتی تاکہ لڑاکا طیاروں کی گھن گرج یا ممکنہ بمباری کی صورت میں بچوں کی زبان خوف سے بھنچے دانتوں کے بیچ آ کر کٹ نہ جائے۔ مُحاصرے کی یہ کیفیت عوام میں بے چینی بڑھانے لگی تھی۔ بگڑتی صورتحال کے پیش نظر ایک روز مُجھے اور میری بہن کو نانی کے پاس گوجرہ بھجوا دیا گیا۔ گوجرہ ریل کے راستے لائل پور سے دیڑھ گھنٹے کی مُسافت پر تھا۔ حالات کی سنگینی کے باعث وہاں بھی ہر سُو گھنی چُپ کے ڈیرے تھے۔

ایک روز ہم بہن بھائی کی دلجوئی کے لیے میری والدہ کے ماموں نے اپنا عزیز از جاں ریڈیو ہمیں تھمایا، گھڑی میری کلائی پر باندھی اور میرے چھوٹے ماموں کے ہمراہ تانگے پر مین بازار میں واقع عوامی فوٹو سٹوڈیو بھیجا۔ یہ سٹوڈیو دو بھائیوں کی ملکیت تھا۔ ان میں سے طاہر نامی فوٹوگرافر نے میرے بال سنوار کرمُجھے سادہ سے پردے کے ساتھ رکھے سٹول پر بٹھایا اور چہرہ اور کاندھے مرضی کے زاویے پر جما کر کیمرے کا شٹر دبا دِیا۔ چار سال کے بچے کی فوٹو سٹوڈیو میں قدرے اہتمام کے ساتھ اُتاری گئی پہلی تصویر میں بھی حالات کا خالی پَن ہمیشہ کے لیے چہرے اور آنکھوں میں رقم ہو گیا۔

چند ماہ بعد لائل پور واپسی کے سفر میں بوگی کی کھڑکی سے ناک بھِڑائے میں کچی پؒکی دیواروں پر چونے اور سیاہی سے لِکھے “مارشل لاء نامنظور” اور “سقوط ڈھاکہ نامنظور” کے نعرے پڑھ کر سمجھنے کا جتن کرتا رہا۔ پوچھنے پر اتنا بتایا گیا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے۔ مُجھے یکدم عجیب سے کئی خیال آئے جیسے کوئی دور کا عزیز تھا جو اب نہیں رہا یا کوئی بیش قیمت آئینہ کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا۔ ایک بار پھِر لائل پور سٹیشن پر والدین کی انگلی تھامے ہم بھائی بہن مال گاڑیوں پر لَدے ٹینکوں کو پٹڑیوں سے گُذرتے دیکھ کر کھیل کھیل میں بوگیاں گِن رہے تھے۔ آس پاس کھڑا ہر مُسافر خالی انکھوں سے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا، کُچھ اس انداز سے جیسے سیلابی ریلا گُزر جانے کے بعد بچا کھُچا اسباب گِنا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ ہلانے پر اِکا دُکا سپاہیوں نے پلٹ کر دیکھا، باقی چُپ چاپ بیٹھے ریل کی چھِک چھِک پر ڈولتے رہے۔

مشرقی پاکستان تو نہ رہا، میری تصویر رہ گئی۔ اور بہت کُچھ وہ بھی جو ٹوٹے ہوے منظرناموں یا بد دِلی کے دِنوں میں بنائی گئی تصویروں میں کہیں ان دیکھا، ان کہا سا رہ جایا کرتا ہے۔ فوٹوگرافر طاہر- عوامی فوٹو سٹوڈیو، گوجرہ – ہینڈ ٹِنٹڈ پرنٹ، چوڑائی 4.6 اِنچ، لمبائی 6 اِنچ-

Hand tinted print (pasted on fiber paper mount)