رفتگاں کا سراغ از سرور الہدی

یہ تحریر 811 مرتبہ دیکھی گئی

ادبی سوانح نگاری اور پھر تنقیدی سوانح نگاری حال کے اردو ادب میں نہ ہونے کے برابر ہے، گو کہ ادب کی عام متوسط اور خاص شخصیات پر صرف محاسن کے بیانات سے پر بہت ساری کتابیں اور مضامین لکھے گے ہیں جن میں بہت کم کو حقیقت سے علاقہ ہے. خاکوں یا مختصر مضامین کی شکل میں بھی تحریریں نہیں کے برابر ہیں. یہ صورتحال نہ صرف ہماری ادبی خود غرضیوں بلکہ بے مروتیوں کا بھی اظہار کرتی ہے. کسی بھی زوال پذیر زبان اور معاشرے میں ایسا ہونا فطری اور لازمی ہے.
گو کہ اس کتاب کا سوانح نگاری سے ذرا دور کا ہی واسطہ ہے تاہم سوانح نگاری کے فن پر ایک طایرانہ نظر ڈال لینا ہمارے موضوع کو گرفت میں لینے کے لیے آسانیاں فراہم کرتا ہے.
سوانح نگاری علم کا ایک ایسا عمل ہے کہ جہاں زندگی سے پرواز کرچکی شخصیت کو حال میں زندہ کرکے پیش کیا جاتا ہے. اچھی سوانح نگاری سکہ بند نہ ہوتے ہوئے اپنے معروض کو دوبارہ زندہ کردیتی ہے.کوئی بھی عظیم سوانح کسی گزرے ہوے شخص کے ساتھ ہونے والے واقعات کا محض بیان نہیں بلکہ اس میں ایسا بیانیہ ہوتا ہے کہ جہاں اس کا اسلوب ناول جیسا بن جاتا ہے. اس طرح سے سوانح دیگر غیر افسانوی نثر سے مختلف ہوتی ہے.
سوانحی تنقید ادبی تنقید کی ایسی صنف ہے کہ جس میں کسی بھی مصنف کی سوانح کو اسکی ادبی تحریروں کے آئینہ میں پرکھا جاتا ہے. لہذا سوانحی تنقید اس طرح سے تاریخی تنقید بن جاتی ہے. یعنی ایک ایسا اسلوب جس میں مخصوص طور پر نہ سہی بلکہ عمومی طور ہی پر مصنف کی زندگی اور اسکے عہد کے آئینہ میں د یکھا جاے .
مغرب میں یہ طریقہ کار نشاۃ الثانیہ کے دوران پیدا ہوا اور اس اسلوب کا سیامیول جانسن نے بھرپور استعمال کیا.اس کا اطلاق جان(John Steinback) واٹ وٹمیان ( Walt Whitman) اور ویلیم شیکسپیر (William Shakspeare) کی سوانح عمریوں پر عمل.میں آیا. والٹ ,وٹمیان سوانحی تنقید کے کسی بھی اسلوب کی طرح اس کا استعمال دانش مندی اور دروں بینی کے ساتھ ہی کیا جانا چاہیے کہ جہاں کسی بھی ادبی تحریر کو اس کی.اصطلاحوں کے اس مظہر ہی میں سمجھا جاے کہ جیسا ہیت پسند نظریہ کے تحت ہوتا ہے. مگر 1920 میں ,مغرب کی نام نہاد نئی تنقید کی نظر میں یہ سوانح عمریاں “سوانحی اغلاط” کا نمونہ بن گیں کیونکہ بقول ان کے ادب کے تخیلای مخرج کو یکسر فراموش کردیا گیا تھا. لیکن ادب تنقید کے باوجود بیسویں صدی میں بھی یہ اسلوب رائج رہا. خصوصی طور پر چارلس ڈکنس( Charles Dickens) ,اور اسکاٹ فٹسجیرالڈ(Scott Fitzgerald ) کے مطالعوں میں ادب کے تخیلاتی، یہ کس حد تک معروضی اور تنقیدی ہیں اس کا احتساب ہمارے موجودہ نقاد کر سکتے ہیں.
اردو میں خالص تنقیدی خاکہ نگاری یا مضامین نویسی کم ہی ہوئی ہے. غالباً اردو میں لکھنے والوں کو اس سے رغبت نظر نہیں آتی.


مندرجہ بالا حقائق کے آئینہ میں سرور الہدی کی کتاب ” رفتگاں کا سراغ” میں شامل مضامین بڑی حد تک سواحی ادبی خاکوں کے زمرے میں نہیں آتے۔ میں انہیں سوانحی اشاروں کے بغیر تاثراتی اور تقیدی مضامین ہی کہوں گا کہ جن کا فوری محرک کسی بھی ادیب کی موت ہے. لیکن ان مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مضامین فوری تحرک سے اوپر اٹھ کر ادبی شخصیتوں کی تحریروں کا بے لاگ مطالعہ کرتے ہیں اور اس عمل میں مخالف تنقیدی نظریات کا احاطہ بھی کرتے ہیں۔
ان مضامین کا بیانیہ ہر ادیب کے شخصی جوہر کو بھی نظر میں رکھتا ہے کہ جو بڑی بات ہے. کلاسیکی اردو میں سوانح کے تعلق سے شبلی.نعمانی کی الفاروق المامون مولانا رومی اور اورنگزیب اور مولانا حالی کی حیات جاوید اور یادگار غالب کا ذکر کیا جاسکتا یے. ہمارے عہد میں مولانا ابوالکلام آزاد امیر خسرو حکیم اجمل خان بدرالدین طیب جی حالی اورقاضی عبدالودود پر سوانح لکھی گی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں جامعات اور کالجوں میں تخلیقی نظم ونثر لکھنے کے لیے ابھی تک کوئی تربیتی نصاب نہیں بنا ہے. عالمی سطح پر کئ انگریزی یونیورسٹیوں میں ایسے نصابوں کا وجود ہے. میرے خیال میں ہر لکھنے والے کو ایسے نصاب کا علم ہونا چاہیے اور پھر اپنے طور پر کوشش کرکے ادب میں قلم کے استعمال کے عمل کو سیکھنا چاہیے. یہ ہنر پڑھے لکھے لوگوں میں بیٹھنے اور اچھی تحریریں پڑھنے ہی سے آ سکتا ہے ورنہ اردو کی موجودہ نظم و نثر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی.
سرورالہدی کی کتاب پڑھتے ہوۓ مجھے یہ مسلسل احساس رہا کہ پڑھے لکھے لوگوں نے ان کے ذہن کی خوب آبیاری کی ہے. یہی نہیں بلکہ خود سرورالہدی نے اپنے مطالعہ تجربے اور غور و فکر سے اپنے ذہن میں وہ علمی سرمایہ جمع کیا ہے کہ وہ اس طرح کی تصانیف میں دوسروں سے مختلف اور افضل تنقید لکھ سکیں. علمیاتی نقطۂ نظر سے علم کا قصد اشیا اور امور کی تخصیص ,کا تعین کرنا انہیں نام دینا اور انکی صداقت کا انکشاف کرنا یے. یہ تمام باتین لسان سے وجود میں آتی ہیں کہ جو بلا واسطہ طور پر منطق سے جڑی ہوئی ہیں. اس کا تعلق زبان و ادب کی تاریخ اور روایت سے بھی ہے. کسی بھی ادبی شخصیت اور اسکی تحریروں کا جایزہ لیتے ہوۓ ناقد کا متذکرہ بالا پہلووں کو نظر میں رکھنا لازمی سا نظر آتا یے. یہ نہیں کہ کتاب کی ورق گردانی کرلی اور مصنف سے جڑی عوامی باتوں اور افواہوں کو سامنے رکھ کر کچھ لھ دیا جاۓ. عوامی باتوں سے میری مراد مصنف کی جا اور بے جا شہرت سے ہے کہ جو علم کی بنیاد پر نہ ہوکر کہی سنی باتوں اور پراپگنڈے سے تشکیل پاتی ہے. تنقید کے نام پر لکھی جانے والی ایسی تحریروں کو ہمیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہیے. کتاب کے اکثر مضامین ہمارے عہد کی بہت سی ایسی شخصیات کا احاطہ کرتے ہیں کہ جو جدید ادب میں بہت ممتاز ہیں. ان میں نثار احمد فاروقی، محمد حسن، وہاب اشرفی، لطف الرحمن، زبیر رضوی، براج مینرا، نیر مسعود فضیل جعفری محند عمر میمن جمیل جالبی، انور سجاد، اور شمس الرحمٰن فاروقی کا ذکر کیا جاسکتا ہے. ہر ایک کی شخصیت انکے معائب کے ساتھ ابھر کر سامنے آتے ہیں. عام طور پر شخصی خاکے اور مضامین تحسینی کلمات سے بھرے رہتے ہیں کہ جن میں فکری توازن کا خیال نہیں رکھا جاتا. ان کو پڑھتے ہوۓ ان کے لکھنے والوں کے ذہن اور انکے میلانات کا پتہ چلتا ہے. سرورالہدى نے یہ مضامین ان شخصیات کی تحریروں کے ساتھ رہتے ہوۓ ان سے اوپر ابھر کر تحریر کیے ہیں.
یہ کتاب پڑھتے ہوۓ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ گویا مصنف گنجینۂ معنی کے طلسم کے اندر داخل ہوگیا ہے. بہ ظاہر یہ مضامین یا خاکے مختلف مشاہیر ادب اور انکی تحریروں پر لکھے گۓ ہیں مگر جس ہنر مندی سے مصنف نے ہر ایک کے جوہر کی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور نگارشات کے حسن و قبح کی جانب اشارے کیے ہیں ان سے ایک ایسی کائناتت ابھر کر آنکھوں کے سامنے آتی ہے جس میں سفید بھی ہے اور سیاہ بھی. گو کہ یہ مضامین الگ الگ وقتوں پر ادیبوں کی وفیات پر لکھے گۓ ہیں مگر ایسا کرتے ہوے سرور الہدی نے اپنی تحریر کو صرف ذاتی تاثرات تک محدود نہیں رکھا. تحریروں کو متن کے وسیع تناظر میں اور پھر اپنی غیر جذباتی غیر شخصی دانش پر بھی پرکھا ہے.مضامین زمانی بعد ہونے کے باوجود ایک طرح کی یکتائی ہیں.
یہ بات گزشتہ دو تین دہائیوں میں اردو میں لکھی جانے والی تحریروں میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے. سرورالہدی کی تحریر ان معنوں میں خالص معروضی ہے اور اس میں کسی ذاتی یا غیر ذاتی تعصب کا عمل دخل نہیں.
جن ادیبوں پر سرورالہدی نے قلم اٹھایا ہے انکی شخصیات کے حسن و قبح کے بارے مجھے خود بہت کم علم تھا. اس اعتبار سے یہ کتاب میرے لیے اندھیرے میں چراغ کے مصداق ہے. کتاب میں شامل مضامین پڑھتے ہوے سرورالہدی کی ذات میں پوشیدہ وہ اسرار بھی کھلتے ہیں کہ جو تنقید کو موازناتی مطالعہ سے آگے لے جاتے ہیں. ان مضامین میں سے چند ایک میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے. ممکن ہے یہ تشنگی مقررہ وقت میں مضمون مکمل کرنے کی حد بندی سے وابستہ ہو. ایک آدھ مضمون میں متعلقہ ادیب پر تنقید کچھ زیادہ ہی ہوئی ہے. مثلاً وہاب اشرفی پر لکھے گۓ مضمون میں۔ حالانکہ آخر میں مصنف نے وہاب اشرفی کے جوہرکو قاموسیت سے تعبیر کیا ہے. اگر انکی تحریروں کے اس پہلو پر زور دیا گیا ہوتا تو بہتر تھا. اسی طرح سے شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریروں کے معروضی حقائق تعریفوں کے بوجھ تلے ذرا دب سے گے ہیں. یہ نہیں کہ سرورالہدی نے انکی تنقید کے مسائل کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان پر لکھے گے مضمون کا عنوان ہی اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مصنف ان کی شخصیت سے مرعوب ہے.
سرورالہدی کی نثر کافی شستہ ہے. اس میں ایسی روانی ہے کہ قاری اسے بغیر رکے پڑھ سکتا ہے. اسے پڑھتے ہوۓ ایک بہاؤ کا احساس ہوتا ہے یہ کتاب اردو کے طالب علموں اساتذہ اور عام قاری کے آگے ایک نۓ جہان معنی کا دروازہ کھولتی ہے کہ جہاں داد و تحسین کے شور و غلغلہ میں ہمارے عہد کی کئ اہم ادبی شخصیات کے چہروں کو بغور دیکھا جاسکتا ہے اور انکی ادبی خدمات کا تعین کیا جاسکتا ہے.