رباعی کا جادو

یہ تحریر 1483 مرتبہ دیکھی گئی

“رباعی ایک بہت بُری بلا اور نہایت جان لیوا صنفِ کلام ہے۔”

جوش ملیح آبادی

رباعی کی صنف کو عالمی شہرت اس وقت ملی جب عمر خیام کی رباعیات کے انگریزی ترجمے کا چرچا ہوا۔ یہ ترجمہ ایڈورڈ فٹز جیرالڈ (1809-1883) نے کیا تھا۔ عمرخیام کے شعری کمال کے وسیلے سے فٹز جیرالڈ کے نام کو بھی دوام حاصل ہو گیا۔ دنیا کی شاید ہی کوئی بڑی زبان ایسی ہو جس میں رباعیات کا ترجمہ موجود نہ ہو تاہم یہ کہنا حقیقت کے قرین ہوگا کہ ایران، برصغیر پاک و ہند، عرب ممالک اور ترکی کو چھوڑ کر رباعی کے محاسن کا صحیح اندازہ دوسری زبانوں کے شاعروں اور ناقدوں کو بہت کم ہے۔

محمد ارشاد کو حقیقی لگاؤ تو فلسفے سے ہے لیکن اصل میں وہ ہماری اس پرانی روایت کے نمایندہ ہیں جس میں عالم، یا حکیم، وہی کہلاتا تھا جو علم کلام، فلسفے، تصوف، حکمت اور شعر و ادب سے یکساں طور پر آشنا ہو۔ ارشاد صاحب نے کبھی نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کی، گوشہ نشینی کو ترجیح دی۔ وہ اردو، فارسی، عربی، پنجابی اور انگریزی خوب جانتے ہیں۔ جس دور میں ملکِ عزیز میں ایک زبان کو بھی ٹھیک طرح جاننے کے دعوے دار کم ہیں وہاں ارشاد صاحب کی لسانی لیاقت پر حیرت ہوتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ وہ سخن شناس ہی نہیں سخن گو بھی ہیں۔

رباعی کی تاریخ اور خوبیوں پر ایسی کتاب راقم کی نظر سے نہیں گزری۔ سب سے پہلے ارشاد صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ رباعی کی صنف ایران کی اختراع نہیں۔ اس ضمن میں تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رباعی عربی الاصل ہے اور عرب ممالک سے ایران پہنچی اور اس سرزمین میں ایسی پھلی پُھولی کہ وہیں کا بُوٹا معلوم ہونے لگی۔ ابتدائی باب کی یہ بحث خاصی پیچیدہ اور خالصتًہ علمی ہے. اس تبصرے میں بحث کا خلاصہ کسی طور نہیں سما سکتا۔ انھیں کے الفاظ کو دہرانا مناسب ہوگا اور ان کی نکتہ آفرینی قابلِ غور ہے: جن “اوزان” کو اہل عجم شعرائے عرب کے کلام میں ڈھونڈتے رہے اور کارِ لاحاصل میں مبتلا رہے ۔۔۔۔ ان اوزان کا شاعری سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ اوزان، یہ آہنگ، یہ کیفیت الفاظ و اصوات قرآن کی فراہم کردہ ہے جسے رباعی گوشعرا نے اپنا لیا ہے۔ اس کے بعد ارشاد صاحب نے بیس آیات درج کی ہیں اور لکھتے ہیں “درج بالا آیات کا اپنا ایک مخصوص آہنگ ہے۔ یہی آہنگ انھیں ایک خاص قسم کی موزونیت عطا کر رہا ہے۔ یہ آیات موزوں ہیں لیکن اپنے اوزان پر نہ کہ شعرائے عرب و عجم کے اوزان پر۔ ان آیات کا وزن ارضی نہیں سماوی ہے۔ عروضی اسے زمین پر ڈھونڈتے رہے۔”

رباعی کے ابداع کے مسئلے سے نمٹنے کے بعد رباعی کی تکنیک اور فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رباعیات عمر خیام کے بارے میں تحقیق کے لیے ایک الگ باب قائم کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ  عمر خیام سے اتنی رباعیات منسوب کر دی گئی ہیں کہ یقین سے یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنی واقعی اس کی ہیں اور کتنی دوسروں کی۔ آخر میں فارسی، عربی اور اردو میں رباعی کی صنف کا جائزہ ہے۔ یہ کہنا غیرضروری ہے کہ اس معاملے میں فارسی کا پلّا بہت بھاری ہے۔ اردو میں اچھی رباعیات کم ملتی ہیں۔ ارشاد صاحب اردو رباعی گویوں میں جوش ملیح آبادی کے زیادہ قائل نظر آتے ہیں گو انھوں نے امجد حیدرآبادی، اسماعیل میرٹھی، تلوک چند محروم، یگانہ، فراق، اثر صہبائی اور احمد ندیم قاسمی کی رباعیوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ انھوں نے یہ چونکا دینے والی بات بھی کی ہے کہ “وہ زبان جسے فارسی کہا جاتا ہے فارس کی زبان نہیں۔ ایران کے کسی بھی ۔۔۔۔ علاقے کی زبان نہیں۔ اس کا اصلی اور صحیح نام دری ہے اور اس کا اصل وطن شمال مشرقی افغانستان۔”

رباعی کی ہیئت پر نظر ڈالیے تو اس پر غزل کے مکھڑے کا گمان ہوتا ہے۔ رباعی کا پہلا شعر گویا مطلع ہے اور دوسرا شعر غزل کا دوسرا شعر۔ تاہم یہ مشابہت یہیں ختم ہو جاتی ہے کہ غزل میں مضامین کی بے ربطی اور رنگارنگی کا رباعی میں پائی جانے والی جامعیت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ رباعی کے چاروں مصرعے آپس میں پوری طرح گتھے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے سے خیال کا وزن دوسرے میں نہ صرف منتقل ہوتا ہے بلکہ کچھ بڑھ جاتا ہے اور دوسرے مصرعے سے تیسرے مصرعے میں سرایت کرکے چوتھے مصرعے کو کمال سلاست سے معنوی عروج تک پہنچا دیتا ہے۔ رباعی میں خیال آفرینی کا یہ توازن اول تا آخر برقرار نہ رہے تو وہ جاذبیت اور تازگی سے یکسر محروم ہو جاتی ہے۔

ارشاد صاحب نے آمدِ سخن میں اتنی رباعیات اپنی کتاب میں جمع کر دی ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ پچاس ساٹھ تو نقل کر ہی دی جائیں لیکن تبصرے میں یہ گنجائش کہاں۔ مشتے نمونہ از خردارے کے مصداق چند ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ سحابی استر آبادی کی ایک رباعی کے آخری دو مصرعوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو: “دنیا کی مذمت بھی دنیا طلبی ہی کی ایک صورت ہے۔ خریدار جس چیز کو خریدنا چاہتا ہے اس میں خامیاں بیان کرتا ہے تاکہ سستی مل جائے۔” یا عطا کے یہ دو آخری مصرعے:”دل میں ہزاروں خورشید روشن تھے لیکن انجام کار ایک ذرّے کے کمال سے بھی آگاہی نہ ہوئی۔” البتہ ایک رباعی، ٹھیک معلوم نہیں کس نے کہی، ایسی ہے کہ اسے نقل کیے بغیر نہیں رہ سکتا:

گرما بگزشت و ایں دل زار ہماں

سرما بگزشت و ایں دل زار ہماں

القصہ تمام سرد و گرمِ عالم

برما بگزشت و ایں دل زار ہماں

ترجمہ:

موسمِ گرما گزر گیا اور یہ دل بے چارہ ویسے ہی کا ویسا

موسمِ سرما گزر گیا اور یہ دل بے چارہ ویسے ہی کا ویسے

مختصر یہ کہ دنیا کا تمام سرد و گرم

ہم پر گزر گیا اور یہ دل بے چارہ ویسے ہی کا ویسے

رباعی میں صرف دس لفظوں سے کام لیا گیا ہے۔ کوزے میں دریا بند کرنا اسی کو کہتے ہیں۔

اردو میں اس پائے کی کتابیں کم شائع ہوتی ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہر اُس شخص کے لیے جو شاعری سے مس رکھتا ہو محمد ارشاد کی یہ کاوش سوغات کے برابر ہے۔

“رباعی” از محمد ارشاد۔ ص226؛ 795 روپیے۔ القا پبلی کیشنز، ریڈنگز، لاہور