راہ کی نشانیاں

یہ تحریر 596 مرتبہ دیکھی گئی

حیرتوں کے اس جہانِ بے ثبات میں ایک اجنبی مسافر کو راہ کی کچھ نشانیاں بتا دی جائیں تو اس کو منزل کی تلاش میں جو آسانیاں میسر آئیں گی اس کا اندازہ مسافر سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھی ایک سفر ہے اور انسان مسافر۔ یہ مسافر چار عناصر کا مرکب ہے یعنی ہوا، پانی، مٹی اور آگ۔ یہ عناصر کتنے پُرتحیر ہیں ان کا ادراک کرنے کے لیے ”ویسے ان کا ادراک بذاتِ خود ایک تحیر ہے“ سہیل احمد خان کی نظموں کا نیا مجموعہ ”راہ کی نشانیاں“ پیشِ نظر ہے جسے ”قوسین“ لاہور نے شائع کیا ہے۔
مظاہرِ فطرت میں کتنی طاقت ہے اس کا ادراک ”ن غنہ“ تلاش کرنے والے ناقدینِ فن کو نہیں ہو سکتا۔ جو آگ کے پاس کبھی بیٹھے ہی نہیں وہ کیمیا گر کیسے بن سکتے ہیں مگر اس شاعر کی زندگی آگ کے پاس گزری ہے خواہ وہ اپنی ذات کے دائرے ہی میں رہا ہے۔
سہیل احمد خان کا ”ایک موسم کے پرندے“ سے ”راہ کی نشانیاں“ تک کا سفر اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کچے جذبوں کا ادھ کچرا بیان شاعری نہیں، شاعری کا جہان کچھ اور ہے۔ اردو شاعری میں کسی لہجے کے تعین کے لیے مختلف شعرا کے ہاں اسالیبِ اظہار کو دیکھا جاتا ہے۔ ان میں کچھ کے ہاں طنزیہ لہجہ ملے تو کچھ کے ہاں سیاسی جو خطابیہ عناصر سے مغلوب نظر آئے گا لیکن چند شاعر ایسے ہیں جو احساس کی سطح پر چھوٹے چھوٹے امیج بناتے ہیں یا پھر تمثیل کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ انداز ان کی فکری ترسیل میں ندرت پیدا کرتا ہے۔ ان شعرا میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمدمشتاق، محمد سلیم الرحمٰن اور ثروت حسین شامل ہیں۔ ”راہ کی نشانیاں“ کے شاعر کا محتاط جذباتی اظہار اس قبیل کے شعرا سے مانوس نظر آتا ہے۔ ان نظموں میں فکری کرب موجود ہے مگر یہ کرب شدید اذیت نہیں پہنچاتا بلکہ اپنے ساتھ مظاہری حسن کی تسلیاں لیے ہوئے ہے:
ایک تنہا کونچ کی اک چیخ سے
چند لمحوں کے لیے جیسے ندی تھرا گئی
پھر خموشی چھا گئی (خموشی)
شاعری کو دبستانوں میں قید کرنے کا ہنر ناقدین نے اپنی سہولت کے لیے ایجاد کیا ہے۔ اگرچہ دیکھا جائے تو شاعر تو شعر کہتا ہے اس کا مقصد کسی دبستان میں نام ٹانکنا نہیں ہوتا۔ سہیل احمد خان کی نظموں کی ایک سطح یہ بھی ہے کہ یہ کسی دبستان کے ہاتھ نہیں لگتیں بلکہ چھو کر آگے گزر جاتی ہیں:
اپنے اسکول میں
آیا تھا جادوگر
اس نے کاغذ کے گولے بنائے کئی
پھر انھیں کھا گیا
ہم تھے حیراں بہت
آج اس شہر کے چوک میں
درجنوں جادوگر
دیکھتے ہیں انھیں بنک، دفتر، کرنسی نگلتے ہوئے
اک پل کو بھی حیران ہوتے نہیں (جادوگر)
اب اس نظم کے آخری حصے میں عمرانی شعور واضح ہے مگر پہلے حصے میں سکول کے بچے کی معصوم حیرت نظم کو سپاٹ بیان بننے سے بچا رہی ہے۔ سہیل احمد خان کی خلیجی جنگ کے دور کی چند نظمیں اپنے اندر ایک انفرادی فکری ردِعمل لیے ہوئے ہیں:
کہا ایک تاجر سے اس کے ملازم نے:”آقا!
اگر کالی بارش ہوئی تو………“
”ابے تم کو کیا فکر ہے؟“ بولا تاجر۔
”اسے شیشوں میں بھریں گے
ارے جنگ کے بعد بھی لوگ لکھیں پڑھے گے
انھیں اونچے داموں سہی پر سیاہی تو ملتی رہے گی۔“
(کالی بارش)
موجودہ سماجی تناظر میں اس نظم کو دیکھیں تو مفاد پرست ملکوں کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔ ”چچا سام کے نام خط“، ”عبودیت“ اور ”آشیانہ“ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
”راہ کی نشانیاں“ میں شاعرکا اپنے دادا کو ”خواب“ سنانا اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ یہ جہان مشابہت کا فسوں ہے:
یہ جہاں ہے مشابہت کا فسوں
راہ میں جو بھی شکل دیکھتے ہیں
اور اک شکل یاد آتی ہے (مشابہت)
ان کے ہاں استعاراتی سطح پر ہوا، پانی، مٹی اور آگ کے استعارے ایک ایسی مستطیل ہیں جن سے انسان کا وجود قائم ہے۔ اور چونکہ ان استعاروں میں مشاہداتی سطح پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان متحیر اور متجسس نظر آتا ہے۔ ہوا پانی کی دشمن ہے پانی آگ کا دشمن اور مٹی انسان سب پر بھاری ہے۔ سہیل احمد خان کی نظموں میں یادِ رفتگاں اور نفسانی خواہشات کا بیان اسلوبیاتی سطح پر کس طرح خوبصورتی پیدا کر رہا ہے:
ٹوکیو میں تنہا ہوں
راہ کے کنارے پہ
دانہ چگتا ہوا کبوتر بھی
پھر پڑھوں گا کلام ناصر کا (ٹوکیو میں تنہائی)
یہ نظم جاپان میں ان کے تدریسی قیام کے دنوں کی نظموں میں سے ایک ہے۔ پرندے ان کی نظموں میں اپنے پورے اساطیری تناظر کے ساتھ موجود ہیں اور ان کی موجودگی نظموں میں فطری حسن پیدا کر رہی ہے:
نیل کنٹھ دھوپ میں
بھٹک رہی ہے کوئی یاد
جیسے اس کے روپ میں (نیل کنٹھ)
لورکا کے لیے نظم ”لورکا“ بودلیئر کی ایک مشہور نظم کا تاثر ”بچہ اور شاعری“، ”دل دریا“، ”شاعر“ ایسی نظمیں ہیں جو میں اپنی باتوں کی دلیل میں پیش کر سکتا ہوں۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/