رات کا وقت ہے کہانی میں

یہ تحریر 1803 مرتبہ دیکھی گئی

غزل گو تو بہت سے ہیں مگر جن چند ایک کو زیادہ سراہا گیا ہے ان کا خاص وصف سادگی ہے۔ وہ بہت الجھا کر بات نہیں کرتے، ایسے قافیوں اور ردیفوں سے اجتناب برتتے ہیں جو اپنی ثقالت یا غرابت سے شعر پر حاوی ہو جاتے ہیں اور نتیجہ خوشگوار نہیں ہوتا۔ جس سادگی کا ذکر آیا وہ اکثر جگہ نثر سے قریب ہے اور دور بھی۔ نثر میں جملہ اس طرح سنوارا جا سکتا ہے کہ کوئی لفظ فالتو نہ ہو اور ہر لفظ صحیح جگہ پر براجمان ہو۔ اس طرح کی صفا غزل میں مشکل ہوتی ہے کہ بیک وقت خیال یا مضمون، بحر اور ردیف قافیے سے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جس لفظ کو آپ نثر میں قلم زد کر سکتے ہیں اسے شعر میں اس بنا پر جگہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اڑواڑ کا کام کر رہا ہوتا ہے۔
فیصل ہاشمی کا شعری مجموعہ، جو زیادہ تر غزلوں پر مشتمل ہے، اپنی سادہ و ضعی میں نثر سے قریب ہے۔ صرف نثر سے قریب نہیں بلکہ کسی قسم کی حاشیہ آرائی سے پاک ہو کر ایسی اداسی سے قریب ہے جو کبھی الاؤ کی طرح بھڑکتی ہے اور کبھی ٹمٹما کر رہ جاتی ہے۔ یہی اداسی ہم سب کا مقدر ہے، ہر وقت نہ سہی، اکثر تو ہے۔ اس میں تعجب ہی کیا کہ فیصل ہاشمی کے کلام کو ان حضرات نے سراہا ہے جو خود بھی اچھے شاعر ہیں۔
سادگی عموماً چھوٹی بحروں کا پیرہن ہی پسند کرتی ہے بلکہ اسے پہن کر اتراتی بھی ہے۔ لیکن فیصل ہاشمی ایک لحاظ سے دوسروں سے مختلف نظر آتا ہے کہ جہاں اس نے کوئی طویل بحر استعمال کی ہے اس کی روانی اور تلازمہ سامانی کچھ اور ہی کیفیت رکھتی ہے۔ یہ غزلیں کم ہیں مگر کیفیت اور ندرت کی حامل ہیں۔ مثلاً “تُو گزر گیا کس موج میں جسے روند کر مرے کوزہ گر” یا “مرےخوش نمامرے خوب رو مجھےاپنے خواب میں دیکھنا”(افسوس کہ شعر صرف دو ہیں) یا “مجھے انتظار تھا شام سے میں بھرا ہوا تھا کلام سے” یا “کوئی شام مجھ میں سمٹ گئی میں غنودگی میں چلا گیا “چلا گیا سے خیال چلتا گیا کی طرف جاتا ہے اور غزل اپنا چولا بدلتی ہے۔
چھوٹی بحروں میں بھی ایسے شعر بہتیرے ہیں جو لطف سے خالی نہیں:
اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھنے سے
دیر تک روشنی رہی مجھ میں
پس تابانی کا احساس تو آ ہی گیا۔ ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ باہر ہے اسے دیکھنے سے الجھن بڑھی ہے۔ دوسرا یہ کہ اب جو روشنی پھیلی ہے وہ باطن سے پھوٹی ہے اور الجھنوں کو کسی طرح سلجھاتی جا رہی ہے۔ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ نظر آنے لگا ہے۔
رات کا وقت ہے کہانی میں
کشتیاں سو رہی ہیں پانی میں
گویا سفر ملتوی ہوا۔ کہانی میں کسی لمبی رات کا وقت یا وقفہ ہے۔ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔
رات ہے اور صبح تک فیصل
رائیگانی ہی رائیگانی ہے
جس نے ایسی راتیں گزاری ہوں وہی اس شعر کے حزن کو محسوس کر سکتا ہے اور صبح کو خالی ہاتھ اٹھے گا۔ یا یہ کمال کا شعر:
چراغ لے کے کوئی راستے میں بیٹھا تھا
مجھے سفر میں جہاں رات ہونے والی تھی
زندگی کا سفر بے چراغ نہیں۔ کہیں نہ کہیں کوئی ہمارا خیال رکھتا ہے اور عین اس وقت جب ہمیں حقیقی معنی میں روشنی کی طلب ہوتی ہے۔
فیصل ہاشمی کی نظم “کھجور کی شاخ” کا آہنگ بھلا لگتا ہے۔ لوک گیت کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ شاعر نے یہاں لوک گیت لکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن لوک گیتوں کی موسیقیت اور تکرار کو آپس میں سمو دیا ہے۔ “جاگ فقیرا جاگ” میں شاعر خود سے بھی مخاطب ہے اور کسی ایسی ہستی سے بھی جس کا مقدر جاگنے ہی والا ہے اور کتنے ہی بھلے کام اس کی توجہ کے منتظر ہیں۔ نظم کے اس سلسلے میں جو پورٹریٹ ہیں وہ مؤثر نہیں۔ البتہ “نظم ساتھ دیتی ہے” اور “گزرگاہ خیال” کے بعض ٹکڑے اچھے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ غزل کے کسی شعر کو تین مصرعوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ کاش نظم گوئی پر بھی زیادہ توجہ دی جائے تو نتیجہ خوشگوار ہو گا۔ کتاب کی طباعت بہت عمدہ ہے۔
کارگاہ از فیصل ہاشمی
ناشر: کولاج، لاہور
صفحات: 160؛ پانچ سو روپیے