ذلتوں کے بیچ تھوڑا سا اجالا

یہ تحریر 2185 مرتبہ دیکھی گئی

دلت: دلاہوا، ٹوٹا پھوٹا، پچھڑا یا دبایا ہوا، مراٹھی لفظ ہے یعنی The Downtrodden

بلبیر مادھو پوری پنجابی شاعر ہیں۔ شاعر کے طور پر بھی ان کا چرچا ہے۔ زیادہ شہرت اس وقت ملی جب “چھانگیا رُکھ” کے عنوان سے ان کی آپ بیتی شائع ہوئی۔ آپ بیتی کا ترجمہ انگریزی میں بھی ہو چکا ہے۔

پریش پوری اپنے مضمون “چھانگیا رُکھ اور اس کا پس منظر” میں لکھتے ہیں: “چھانگیا رکھ سے ایسا پیڑ مراد ہے جس کا اوپر کا گھنا حصہ کاٹ ڈالا گیا ہو اور ارد گرد سے اس کی بے دردی سے چھنٹائی کرکے کم قد اور کم قدر بنا دیا گیا ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ عنوان پیڑ کی اندرونی مزاحمت اور بغاوت کی علامت بھی ہے کیوں کہ اس میں دوبارہ کونپلیں اور ننھی ٹہنیاں نکلنے لگتی ہیں۔ “گویا کتنا بھی ستم ڈھایا جائے اس میں جیے جانے کی خواہش اور توانائی موجود رہتی ہے۔ اسے کچلا نہیں جا سکتا۔

بلبیر خود بھی دلت ہیں۔ اس لیے آپ بیتی میں جو کچھ رقم کیا ہے وہ اول تا آخر حقیقی بھی ہے اور دل خراش بھی۔ آبادی کے ایک خاصے بڑے حصے کو، بالادستی کے زور سے، نچلا طبقہ قرار دے کر، حقیر، ناپاک اور ناقابل اصلاح سمجھ کر، معاشرے کے حاشیوں کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں۔ نہ جانے کتنی صدیوں سے یہی بدسلوکی ہوتی آئی ہے۔ اس امتیاز کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اس کے مکمل طور پر ناپید ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ پہلے تو دلتوں کو تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جب وہ لکھ پڑھ ہی نہیں سکتے تھے تو اپنی ناگفتہ بہ حالت، اپنی ذلت و خواری کا احوال، دوسروں کو کیسے بتاتے، احتجاج کا راستہ کیسے اختیار کرتے۔ اب کہیں آ کر انھیں تعلیم حاصل کرنے اور سر اٹھا کر چلنے کا موقع ملا ہے۔ پھر بھی ذات پات کے الجھیڑوں میں جکڑے سماج میں ان پر یہ خوف ضرور طاری رہتا ہے کہ انھیں پہچان لیا جائے گا، دھتکار دیا جائے گا۔ دھتکارا نہ بھی جائے تو بھی ان سے میل جول میں واضح تکلف برتا جائے گا۔

پنجاب میں دلتوں کو گانؤ کی شاملات میں پچھمی نشیبی کنارے پر عارضی جھونپڑوں میں رہنے کی اجازت تھی۔ قانونی اعتبار سے مشترکہ ملکیت ہونے کے باوجود یہ زمین دراصل زمیندار ذات کے لوگوں کی ملکیت ہوتی تھی۔ ذات باہر لوگوں کو پکا مکان بنانے کا اختیار بھی نہ تھا۔ انھیں اس زمین سے کسی وقت بھی بے دخل کیا جا سکتا تھا۔ کہنے کو گانؤ کے باسی لیکن گانؤ سے باہر۔ اسی لیے دہلی میں اس مکان کا مالک، جو بلبیر نے کرائے پر لے رکھا تھا، بلبیر سے پوچھتا ہے: “اچھا تو آپ کا گھر گانؤ میں ہے! گانؤ کے اندر ہے یا باہر؟” اس پوچھ گچھ کا مقصد یہی ہے کہ ذات پات کا سراغ مل جائے۔ بلبیر اور اس کی بیوی کو یہ خیال ستاتا رہتا ہے: “جات کے کلنک نے شہر آ کے بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ کہنے کو یہاں پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں۔”

بدقسمتی سے تعلیم بھی (جسے تعلیم کے نام پر تہمت ہی کہنا چاہیے) ذہنوں میں صدیوں سے رچے تعصبات کو مٹا نہیں سکتی۔ 1998ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے اپنے چیمبر کو گنگاجل سے دھو کر پاک کرنے کا حکم دیا کیوں کہ اس سے پہلے وہاں ایک دلت جج بیٹھ چکا تھا۔ اس معاملے میں چاہے ترقی پسند کامریڈ ہوں یا گاندھی ایسوسی ایشن کے عہدے دار، سب کا رویہ تقریباً ایک سا ہے۔ البتہ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ دلتوں کی آبادی کے لیے گانوؤں کی پچھمی سمت ہی کیوں مخصوص ہے۔ اس میں بھی کوئی رمز ہوگا۔

بہرحال، تعلیم کے عام ہونے سے بڑا فرق پڑا ہے۔ بیسویں صدی کے آخر تک دو لاکھ سے زیادہ پنجابی دلت ریزرویشن (کوٹے) کے نتیجے میں سرکاری نوکریوں میں آ چکے تھے اور ان میں سے بہت سے اعلیٰ سول، پولیس، ہیلتھ اور انجینئرنگ کی سروسز میں تھے۔ بہت سے چمار بڑے اور چھوٹے صنعت کار اور تاجر ہیں۔ جالندھر شہر میں کئی کروڑ پتی دلت موجود ہیں۔ پچاس ساٹھ سال پہلے اس طرح کی کوئی بات تصور میں نہیں آ سکتی تھی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ تبدیلی کی کلید تعلیم ہے۔ تعلیم یافتہ ہو کر ہی تعصبات کے مقابلے میں کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔ تعلیم کی قدر دلتوں سے زیادہ کون کرے گا؟ شاید اس لیے پاکستان میں جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے علاقوں میں تعلیم کا فروغ نہیں چاہتے کیوں کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح قابو میں رکھنا مشکل ہے۔

بلبیر نے آپ بیتی میں کسی چیز پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ غربت، ذلت، گندگی، رہنے کے لیے خراب جگہیں، برا کھانا، برا پینا، غرض کہ اذیت ناک زندگی کو بے جھجک ہو کر، جوں کا توں، بیان کر دیا ہے۔ یہ کھری کھری حقیقت نگاری ہے۔ اجمل کمال نے آپ بیتی کو براہِ راست پنجابی سے ترجمہ کیا ہے اور بیانیے کو شستہ اردو میں ڈھالنے کی مطلق کوشش نہیں کی۔ ایسا کرنے سے بیانیے کی فوریت کو زک پہنچتی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس ترجمے میں مروجہ اردو کی نسبت اصل متن کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔

(یہ ترجمہ “آج” کے شمارے 109 میں شائع ہوا جہاں یہ 238 صفحات پر مشتمل ہے۔)