دھوبی گھاٹ

یہ تحریر 2506 مرتبہ دیکھی گئی

اس نے اپنے گھر میں پانچ قبریں بنا رکھی تھیں ۔ بڑی قبر، اس سے چھوٹی قبر، تیسری قبر ، چوتھی چھوٹی قبر اورآخری اس سے چھوٹی قبر، اس کے صحن میں قطار در قطار بن چکی تھیں۔ وہ روز ان کی مٹی گیلی کرتا، پھول ڈالتا، اگربتیاں جلا کر قبروں کے پیٹ میں گھونپ دیتا ۔ دیے روشن کرتااور ان کی پائینتی پر ہتھیلی تھوڑی کے نیچے رکھ کر گھنٹوں اکڑوں بیٹھا رہتا۔ ان سب قبروں میں پہلی قبر اس کے باپ کی تھی ، دوسری اس کی ماں کی، تیسری اس کے بھائی کی ، چوتھی اس کی بے وفا بیوی کی اور پانچویں اس کی محبوبہ کی قبر تھی جو ابھی تازہ تازہ ہی بنی تھی۔ باقی گھر ویرانہ تھا اگرچہ وہاں اس کی دوسری بیوی اور بچے رہتے تھے۔ روزانہ برتنوں کے ٹوٹنے اور چیخ و پکار سے اس کی ریاضت میں خلل پڑتا تھا لیکن اسے پھر بھی یہی محسوس ہوتا جیسے گھربیابان ہے۔ اسے ہمیشہ قبرستان جانے سے خوف رہا لیکن باپ کے مرنے کے بعد جیسے یہ ڈر اڑن چھو ہو گیا ہو۔ گھر کی بغلی گلی کے ساتھ ہی برابر میں اس کے باپ کا دھوبی گھاٹ بھی تھا۔ تین طرف سے اونچی دیواروں میں گھرا ہوا کھلا سا بڑا صحن جس میںچارعددحوض اور تین دیواری کھرے موجود تھے ۔ جن کے اندر بنیان اور دھوتیاں کسے ہوئے دھوبی چھپاچھپ کپڑے دھویا کرتے تھے۔ اپنے اپنے کھرے کی دیواروں پر کپڑوں کو پٹختے اور منہ سے ہف ہف ہف ہف کی آوازیں نکالتے ہوئے وہ بڑے عجیب سے لگتے تھے۔ دھوتی اور بنیان میں ملبوس ایک دھوبی اس کا باپ بھی تھا جس کے ہونٹوں کے کناروں میں ہمیشہ ادھ جلا سگریٹ دبا رہتا تھا ۔ وہ جب تک زندہ رہا دونوں میں ٹھنی رہی ، شرٹ پتلون کس کر سائیکل پر سواری کے لیے نکلنا اس کے باپ کو بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مبارک بھی اس کے آبائی پیشے کو اختیار کرے ۔ ” او شہری ببوا۔ چھوڑ دے کتابوں کا پیچھا ۔ کل کو بھی یہی کام کرنا ہے تو ابھی کیوں نہیں؟“

مبارک سائیکل کی چین چڑھاتے ہوئے سنی ان سنی کرتااور گلیوں بازاروں میں بگولے کی طرح اڑنے لگتا۔ بے فکری کے دن پر لگا کر اڑ گئے دس جماعت پاس مبارک کو نوکری نہ ملی تو باپ نے کان سے پکڑ کر اپنے دھوبی گھاٹ میں اتار دیا۔ ” دھوبی کا کتا ، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ شہری بلما ، ہوش میں آؤ۔ یہ تمہارے باپ دادا کا کام ہے ، کاہے کی شرم۔ “

” میں یہ بنیان اور دھوتی نہیں پہن سکتا۔“

” تو تمہیں جیکٹ پہنا دیں۔ وہ کیا کہتے ہیں ٹائی لگادیں۔ ۔۔ یاد رکھو، تمہارے پردادا انگریز سرکار کے دھوبی تھے۔ کیا ٹھاٹ باٹ تھے ان کے۔ “

” واہ جی واہ ! کیا ٹھاٹ باٹ تھے ان کے۔“ مبارک باپ کی نقل اتارتا۔

” تو ہمیشہ رہے گا، دھوبی کا کتا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔“باپ کا سینہ دھلائی کے زورکے بجائے اس سے لڑتے ہوئے لرزنے لگتا۔

مبارک منہ چڑاتا ہوا باہر نکل جاتا لیکن آخر ایک دن اسے اپنے باپ کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے ۔ دل میلا ہی رہا وہاں کوئی دھوبی پٹرا کام نہ آ سکا۔ وہ اپنی موجودہ حالت سے خوش نہیں تھا اس لیے جب خوابوں کا در وا ہوتاتوایک انجانی حسینہ اس کا ہاتھ تھامے گول گول گھومتی رہتی۔ خواب نگر کا شہزادہ خوش تھا اس کا ٹرنک رنگ برنگی شرٹوں اور پتلونوں سے بھرا ہوا تھا ۔ چیک والی پتلونیں اور سادہ شرٹیں پہن کر خود کو آئینے میں دیکھتا تو ہاتھ نچا نچا کر ڈائیلاگ مارنے لگتا۔ اسے اپنے باپ سے نفرت ہونے لگی تھی جس کی وجہ یہ دھوبی گھاٹ تھا جسے وقت نے کھنڈر بنا دیا۔ حوض خالی تھے اور ان میں لگی ہوئی کائیاں بھی پھیل چکی تھیں۔ اس کے اندر باپ سے بغاوت کا مادہ پہلے سے ہی موجود تھا پھر آہستہ آہستہ اس میں زہریلا مواد جمع ہونے لگا ۔ ” شہر میں اب جگہ جگہ ڈرائی کلینرز کھل گئے ہیں ۔ میری مانو تو یہ چھوڑو اور کوئی بڑی مشین رکھ لو۔ “ مبارک اپنے باپ کو قائل کرنے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا۔

بغاوت نے اپنا رخ موڑا اور وہ ایک دن چپکے سے تنگ کپڑوں میں لپٹی ایک لڑکی کو لے کر گھر میں داخل ہوگیا۔ حوض کے گیلے کنارے بھی ساکت تھے جب دھوتی کے کنارے موڑتے ہوئے اس کے باپ نے ادھ جلے سگریٹ کو اس کے منہ پر تھوک دیا۔ کپڑے دھونے والا موٹا ڈنڈا اس کی کمر پر تڑا تڑ برس رہا تھا۔ اگر اس دن ماں اور چھوٹا بھائی آگے نہ آتے تو شہری بابو کی دھجیاں اڑ جاتیں۔ اس کا باپ ہانپتے ہوئے چارپائی پر ڈھے گیا اور تنگ لباس والی دوشیزہ اس کے کمرے میں منتقل کر دی گئی۔ مبارک کو باپ سے نفرت کرنے کا جواز مل گیا تھا جو زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ شہری بابو سارا دن سائیکل پر آوارہ گردی کرتے ہوئے گھر آتا جہاں اس کی بیوی پلنگ پر کروٹ بدل کر سوئی ہوئی ملتی۔ اس کی شادی کے بعد باپ کو چپ لگ گئی تھی وہ مبارک کے ساتھ گونگے بہروں کی طرح گفتگو کرنے لگا تھا پھر ایک دن اچانک حوض پر کپڑا مارتے ہوئے اس کے منہ سے نکلنے والی ہف کی آواز چیخ میں بدل گئی۔ ہسپتال جانے سے پہلے ہی وہ مبارک کے بازوؤں میں ٹھنڈا ہو گیا۔ اس نے باپ کی آنکھیں بند کیں تو اس کے ٹھنڈے ٹھار گیلے جسم سے سوڈے کی اٹھتی ہوئی مہک اس کے نتھنوں کو چیرتی چلی گئی۔ اس دن پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ اس کے بازوؤں میں محبت ہی محبت بھری ہوئی تھی جسے وہ نفرت سمجھ کر پال رہا تھا۔ باپ کو دفنا کر گھر آیا تو ہر طرف خاموشی تھی دھوبی گھاٹ چپ تھا اور مینڈک ٹر ٹر کر رہے تھے۔ اس نے صحن میں باپ کی قبر بنائی اور مجاور بن کر بیٹھ گیا۔

ماں اپنی بیوگی کے دن کاٹ رہی تھی اور بھائی اپنے باپ کے کام کو چلا رہا تھا۔ مبارک کی سائیکل اس کی آوارہ گردیوں کی ساتھی بن گئی اور واپسی پر تنگ کپڑوں میں پھنسی رہنے والی لڑکی اب عورت بن کر اسے کھسوٹنے لگی تھی۔ مبارک کو رہ رہ کر خیال ستانے لگتا کہ اس کا باپ شاید اس کی وجہ سے ہی دنیا سے گیا ہے ۔ چھوٹے پر بھی جوانی خوب مہربان ہوئی تھی وہ جب بھی دھوتی بنیان پہنے اسے کپڑے دھوتا دکھائی دیتا تو لگتا گویا باپ اس کے جسم میں کروٹ لے کر اٹھ بیٹھا ہو۔ ” ویرے ، تیرے ہنسنے کھیلنے کے دن ہے۔ کملیا چل آ بسنتی میلے۔ “ مبارک مستی کی دھن بجاتا۔ گیلے کپڑے چھٹکتا ویراہنستے ہوئے اس کی بات کو بھی تار پر ڈال دیتا۔ ماں کی انگلیاں اس کے سر پر تیل کی مالش کرتے ہوئے گھومتی رہتیں اور آنکھیں بند کیے اسے لگتا جیسے کسی پہاڑ ی راستے پر سائیکل چلا رہا ہو۔ نیچے کھائی کا خوف اس پر حاوی ہونے لگتا تو وہ منہ موڑ کر ماں کے سینے سے چمٹ جاتا۔ ” چل نکمیا، بد ذاتا۔“ ماں کے بوسے جھولی میں پڑے اس کے منہ پر پٹاخ پٹاخ پڑتے جیسے بارش کے موٹے موٹے قطرے صحن میں گرتے ہوں۔

مبارک کے لیے یہ خوشی بھی عارضی رہی ، ماں کو شہر کے بڑے ہسپتال لے کر جاتے ہوئے ٹرالی کی ٹکر نے دونوں کے پرخچے اڑا دیے۔ موٹرسائیکل کی ٹینکی ہی نہیں پھٹی بلکہ ان کی بھی بوٹی بوٹی سڑک پر پڑی تھی۔ مبارک نے کانپتے ہاتھوں سے ان کے جسموں کے ٹکڑے اٹھائے اور باپ کے ساتھ جا کر دفنا دیے۔ دل کی طرح صحن بھی خاموش تھا۔ قبرستان میں دو قبریں باپ کے دائیں بائیں تھیںجبکہ صحن میں برابر کھود دی گئیں۔ مبارک کے گھنے بال ماتھے پر سے اڑ گئے تھے، اس کے ہاتھوں کی انگلیاں لرزش کا شکار رہنے لگی تھیں۔ اب اس سے سائیکل بھی نہیں چلتی تھی وہ بار بار گھنٹی دباتا اور کام والا تھیلا چارپائی پر پھینک کر وہیڑے میں قبروں کے پاس بیٹھ جاتا۔ گھر کی واحد عورت مبارک کی رونی شکل دیکھ دیکھ کر ادبدا گئی تھی وہ روز اسے قبرستان سے ہاتھ پکڑ ے کھینچتے ہوئے گھر لاتی۔ چیختی چلاتی ، چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتی اور وہ گونگے بہرے شخص کی طرح نظریں ایک ہی نقطے پر مرکوز کیے ہوئے سو جاتا۔

” تم روز انھیں روتے ہو۔ تم بھی ان کے ساتھ مر کیوں نہیں جاتے۔ “ تنگ لباس جامے سے باہر ہونے لگتا۔

” یہ قبریں جل کیوں نہیں جاتیں۔ اس صحن میں آخر ہے کیا ؟ کیوں چوکڑی مار کر بیٹھ جاتے ہو۔ آگ لگ جائے تمہیں بھی۔ “ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتی اور مبارک دل ہی دل میں آمین کہتا چلا جاتا۔ دھوبی گھاٹ خود ہی بند ہو گیا تھا اور اس نے بڑے بازار میں چھوٹی دکان کرایے پر لے لی تھی۔ چوڑے پھٹے پر دری اور چادر بچھائے وہ کوئلوں والی استری وتر لگے ہوئے کپڑوں پر پھیرتا۔ جیسے جیسے کریزیں بیٹھتیں اس کی ذہنی پریشانیاں بھی سیدھی ہوتی چلی جاتیں۔ گرلز ہاسٹل کی تسلیمہ جب بھی اس کے پاس کپڑے استری کرانے کے لیے رکھتی وہ یونہی سپاٹ چہرہ لیے کریزیں سیدھی کرتا رہتا۔ پھر آہستہ آہستہ دونوں کا دل ملنے لگا، مبارک کو تسلیمہ کا زندگی میں آنا اچھا لگا تھا۔ وہ ہر باراس سے اپنے باپ ، ماں اور بھائی کی باتیں کرتا اور وہ سٹول پر بیٹھی پورے انہماک سے سنتی۔ پھر ایک دن باتیں کرتے کرتے وہ اس کی سائیکل کے پیچھے بنے سٹینڈ پر بیٹھی اور غائب ہو گئی۔ دونوں دنیا میں موجود تھے لیکن نظروں سے اوجھل ہوئے پھرتے تھے۔

گھرمیں بیٹھی عورت بھیڑ بکری کی طرح ایک ہی تنے سے بندھی ہوئی تھی اور ایک دن مبارک کی رونی شکل دیکھ کر اس نے بھی تنے سے رسا تڑوا لیا۔ وہ جس طرح تنگ کپڑوں میں لپٹی اس کے ساتھ آئی تھی ویسے ہی تنگ جامے میں واپس چلی گئی۔ اس کے صحن میں ایک بار پھر جنازہ پڑا تھا اس نے قبر کھودی اور تنگ لباس والی کو اس میں پھینک کر مٹی ڈال دی۔ اس کے لیے عورت کی بے وفائی ان میلے کپڑوں کی طرح تھی جنہیں اس کا باپ پٹخ پٹخ کر حوض کے کناروں پر مارتا تھا ۔ سوڈا ڈال کر جھاگ بناتا اور میلے کپڑوں کی ڈبکی لگ جاتی۔ وہ عورت بھی میل بن کر بہہ چکی تھی۔ مبارک نے سات سال اس کی قربت میں گزارے تھے اس لیے اس کی قبر پر بھی دیا جلانا فرض تھا۔

تسلیمہ اس ماتمی ماحول میں نغمہ جاوداں بن کر آئی۔ چمڑے کا بیگ اور کالے شیشوں والی عینک لگائے وہ اس کی سائیکل کے پیچھے بیٹھتے ہی گپیں ہانکنے لگتی۔ ” سنو ! تم مجھے مت چاہو۔ میں تمہیں چاہتی رہوں گی۔ تم ملو یا نہ ملو۔ “ یہ جملہ سنتے ہی مبارک کی کنپٹیاں سفید ہو جاتیں اوروہ اپنے پیلے دانتوں کو چھپانے کی کوشش میں سگریٹ سلگا لیتا۔ اس کے بچے بے وفائی کی پھانسی چڑھ چکے تھے دونوں لڑکے دروازے کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھے اس کا انتظار کرتے ۔ اس کے گھر کو عورت کی ضرورت تھی تو اس نے ہمت باندھ لی۔

” تسلیمہ ، مجھ سے شادی کر لو۔ “ مبارک نے جلدی سے استری آستین پر چڑھا ئی۔

” بھلا کسی لا ش کے ساتھ بھی رہا جا سکتا ہے ۔ “

” تو کیا میں لاش ہوں؟“

” نہیں میں نے اپنی بات کی ہے۔ ۔۔ اچھا دیکھو کل سے ہم نہیں ملیں گے۔ ہاسٹل بھی بند ہونے والا ہے شاید مجھے واپس گھر جانا پڑے۔ “

” تو کیا تم اتنی جلدی چلی جاؤ گی۔ “ گرم گرم استری مبارک کی ہتھیلی کو سرخ کر گئی ۔

” ہاں کل بھی جانا ہے تو کیوں نہ آج سہی۔ ۔۔۔ سنو مجھے بھولنا مت۔ “ اس کی آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھیں۔

مبارک اسے بھول بھی کیسے سکتا تھا ، جس کی وجہ سے اس کی سائیکل کا ردھم برقرار تھا وہ یوں اچانک اسے چھوڑ جائے گئی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔

 ” گشتی۔“ گالی دینے کے باوجود وہ اس سے نفرت نہ کر سکا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ تسلیمہ کی روح بھی پرواز کر چکی ہے تو اس نے صحن میں قبر کھود کر اسے اندر لٹا دیا۔ جو اسے زندگی کی طرف لوٹ کر لائی تھی ایک بار پھر پھینک کر چلی گئی۔ کھلے گھیر والے کپڑے پہنے ایک نئی عورت اس کے دروازے سے لگی کھڑی تھی جس نے ٹرن ٹرن کی آواز سنتے ہی دونوں پٹ کھول کر اس کی سائیکل کو راستہ دیا۔ مبارک نے دونوں لڑکوں کے دھلے دھلائے چہرے اور صاف کپڑے دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ نئی عورت چولہا جلا کر توا اوپر رکھ چکی تھی ، دونوں لڑکے چارپائی پر بیٹھے ہاتھوں سے کوئی کھیل، کھیل رہے تھے۔ مبارک منہ دھو کر صحن میں چکر لگانے لگا۔ اس نے بغل والی گلی میں گھپ اندھیرے کو محسوس کرتے ہوئے ویران دھوبی گھاٹ پر آخری نظر ڈالی ۔ ” دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا۔“اسے ویرانے میں باپ کی آواز سنائی دی ۔ پانچوں قبریں خاموش تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کس کچی قبر کو پکا کروائے۔

٭٭٭٭٭٭