دنکر کی ڈائری

یہ تحریر 462 مرتبہ دیکھی گئی

“سنکرتی کے چار ادھیاے” کو پڑھتے اور ترجمہ کرتے ہوئے “دنکر کی ڈائری” کا خیال آتا رہا۔ لیکن یہ سوچ کر ڈائری پڑھنے کی کوشش نہیں کی کہ کہیں دنکر کی ڈائری کی گھریلو اور عام زندگی کی فضا ایک نظری کتاب کی قرأت میں حائل نہ ہو جائے۔ کسی ادیب کی ڈائری بھی ادبی معاملات سے بے تعلق تو نہیں ہوتی مگر پھر بھی اس کا امکان باقی رہتا ہے کہ زندگی اور زمانے کی عام سطح اپنی طرف دیر تک متوجہ رکھنے میں کامیاب رہے۔ اب جب کہ ڈائری مطالعے میں آئ تو دنکر کی زندگی اور ادبی زندگی دونوں کا ڈائری میں سماویش نظر آیا۔ دنکر کی جائے پیدائش ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کا نام سمریا ہے۔ جہاں سے گزرتے ہوئے میری آنکھیں گاؤں کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور قدم رکنے لگتے ہیں۔ یہی راستہ ہے جو میری بستی تک پہنچاتا ہے۔ لیکن اس ڈائری میں کوئی ایسی تاریخ یا مقام نہیں جس کا تعلق سمریا سے ہو۔ انھوں نے پیش لفظ میں اپنی ڈائریوں کے کھو جانے کا ذکر کیا ہے۔ یقیناً جو ڈائریاں کھو گئیں ان کے کچھ صفحات سمریا سے متعلق ہوں گے۔ یہ ڈائری 1973 میں شائع ہوئی۔ اس کا تیسرا ایڈیشن میرے پیش نظر ہے جو 2021 کا ہے۔ لوک بھارتی پرکاشن،پریاگ راج نے اسے شائع کیا ہے۔ اردو ادیبوں نے ڈائریاں کم لکھیں اور شائع بھی کم ہوئیں۔اردو معاشرے میں تنقیدی اور تخلیقی تحریریں زیادہ مقبول رہی ہیں۔ ڈائری کے اوراق پر تاریخ کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی بات ادب کے تعلق سے لکھی بھی گئ تو اسے ایک خاص وقت اور تاریخ کا زنجیری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ڈائری کے اوراق تاریخ کو کبھی کبھی کچھ اس طرح روشن کرتے ہیں کہ ہماری تہذیبی زندگی- جس میں ادب بھی شامل ہے-کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔ ڈائری کا اندھیرا جس سے عموماً لوگ گھبراتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی مخصوص ذات اور اس سے وابستہ زمانے کو کیوں پڑھیں اور کیا پڑھیں۔ میں نے اردو میں اس قسم کی آخری کتاب ظ انصاری کی “ورق ورق” چند ماہ قبل پڑھی جو 1952 میں شائع ہوئی تھی۔ تخلیقی اور تخیلی اعتبار سے یہ کتاب بہت اہم ہے اور میرا خیال ہے کم ہی پڑھی گئی ہے۔ تو ‘دنکر کی ڈائری’ ‘ورق ورق’ کے بعد پڑھی جا رہی ہے اور دونوں کے درمیان کوئی ایسا رشتہ بھی نہیں ہے سوائے اس کے دونوں ادیب ہیں۔ لیکن دنکر نے ڈائری کو تخلیقی بنانے کی کوشش نہیں کی۔ مگر ڈائری لکھنے اور ڈائری کو پڑھنے کے جو مسائل ہیں وہ ان سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ 17 اپریل 1961 کی تاریخ میں ایک خواب کا ذکر ہے جو کسی کہانی کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ خواب کس طرح کہانی بن جاتا ہے۔ اور اس کے باوجود اس کی واقعاتی سطح بھی باقی رہتی ہے وہ اس ٹکڑے سے ظاہر ہے۔
“رات ایک سپنا دیکھا کہ اپنے گاؤں سمریا اور پاس کے گاؤں بیہٹ کے بیچ میں کھیتوں کے اوپر آکاس میں اڑ رہا ہوں۔اتنے میں مغرب کی اور سے ایک آدمی بھینسے پر چڑھا ہوا آیا اور جہاں میں اڑ رہا تھا وہاں آ کر رک گیا۔لگا جیسے بھینسا اور آدمی دونوں مجھے پہچانتے ہیں۔ان سے بات کرنے کو میں آکاش سے پرتھوی پر اتر آیا اور اس آدمی سے میں نے پوچھا کیا فلم بنانے آئے ہو ؟ اس آدمی نے کہا ہاں برج دیو شرما کی اور سے۔بس اتنے میں نیند کھل گئی۔ خواب میں خوف کا احساس نہیں ہوا تھا۔ لیکن جاگنے پر میں اس خواب پر غور کرنے لگا۔”
دنکر نے بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ ڈائری ہو یا خودنوشت آدمی اپنی اصل صورت کو اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح کوئی دوسرا شخص دیکھ سکتا ہے۔ پیش لفظ میں انھوں نے اس کتاب کو ڈائری اور جرنل دونوں کا مشرن بتایا ہے اور یہ ایک نیا پہلو بھی ہے۔ دنکر کا وقت دہلی اور پٹنہ میں گزرا۔ درمیان میں انھوں نے مختلف مقامات کا سفر بھی کیا مگر دلی اور پٹنہ ان کی ڈائری میں نمایاں ہیں۔ یہ دو شہر ان کی زندگی اور ادبی زندگی کا بنیادی حوالہ بن گئے۔ دنکر کا تعلق سیاسی معاملات سے بھی رہا ہے۔ سیاسی شخصیات سے خصوصاً پنڈت نہرو سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔پنڈت نہرو نے سنسکرتی کے چار ادھیاے کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ دنکر نے کئی موقعوں پر اپنے ملک کی نمائندگی بھی کی ہے۔ لہذا سیاست کی لہر بھی ان کی ڈائری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پیش لفظ میں ہی وہ لکھتے ہیں کہ
“گرمی تو دلی میں بھی خوب تیز پڑتی ہے لیکن پٹنے کی گرمی کی اپنی اہمیت ہے۔ دلی کے اخباروں میں بھی موت کی خبریں انھیں کی چھپتی ہیں جو پٹنے یا بہار میں لو کی چپیٹ سے مرتے ہیں۔”
یہ بیان سیاسی تو نہیں ہے لیکن بدلی ہوئی زبان میں آج بھی اپنے شہر اور صوبے کے تعلق سے سیاست داں اسی طرح کا بیان دیتے ہیں۔ 25 فروری 1961 کی تاریخ میں یہ اطلاع درج ہے کہ نریندر گوئل سنسکرتی کے چار ادھیاے کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے ہیں۔ مجھے ابھی تک اس کتاب کے انگریزی ترجمے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اور میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ کنوز اس کتاب کا انگریزی ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ 21 جنوری 1961 کو یہ اطلاع دی گئی ہے کہ مہارانی الیزابیتھ دلی آئی ہوئی ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ کن کن شہروں میں مہارانی جائیں گی اور اخیر میں ناگا ارجن کی ایک نظم کا ذکر کرتے ہیں۔ جس کا ایک شعر ہے
رانی آؤ ہم ڈھوئیں گے پالکی
یہی ہوئی ہے راے جواہر لال کی
1اپریل 1961، دلی میں ہند و پاک سمینار کا ذکر ہے۔ اس ذکر کی ایک تاریخی اہمیت ہے لہذا اسے یہاں درج کیا جا رہا ہے۔
” کل سے ہند پاک سمیلن کا جلسہ چل رہا ہے۔ آج وگیان بھون میں اس کا ادبی جلسہ میری صدارت میں ہوا۔ میں جب بولنے کو کھڑا ہوا مغربی پاکستان کے شاعر حفیظ جالندھری نے کہا دنکر صاحب آپ اردو میں بولیں۔ یہ سن کر مشرقی بنگال کے شاعر جسیم الدیں کھڑے ہو گئے اور بول اٹھے “No No Dinkar, You Mist speak in Bengali ” حفیظ اور جسیم دونوں میرے دوست ہیں۔ میں پس و پیش میں پڑ گیا۔ بالآخر میں نے کہا اگر یہ بات ہے تب تو مجھے انگریزی میں بولنا پڑے گا۔ اور اپنا بھاشن میں نے انگریزی میں ہی دیا۔ شوکت تھانوی نے اپنے بھاشن میں کہا پاکستان میں ہمیں اردو کو آسان بنانا چاہئیے۔ ہندوستان میں آپ ہندی کو آسان بنانے کی کوشش کریں۔ تھانوی نے جب بھاشن ختم کیا۔ میں نے اس کے کان میں کہا۔ کہ مانتے ہو نہ کہ گاندھی جی ابھی بھی پاکستان اور ہندوستان کے لیے ریلیونٹ ہیں؟ اس نے کہا ہاں بھائی سو تو ہے۔”
ڈائری کے ان جملوں کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تاریخ 1اپریل1961 کی ہوتی ہوئی بھی آج کی تاریخ ہے۔ ان میں دو زبانوں کے تئیں کتنی درد مندی اور کتنا خلوص ہے۔ نہ کوئی طنز ہے اور نہ کوئی تمسخر۔ زبان کے حوالے سے گاندھی جی کو با معنی بتانا۔ یہ بھی کس قدر دلچسپ اور اہم ہے۔ لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں ہندی کے ساتھ اردو بھی تو موجود تھی اور ہے۔ اردو کو ہمیں اپنے ملک کے سیاق میں بھی آسان بنانے کا کوئی مشورہ دے سکتا ہے۔ شائد اس مشورے کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ اردو یہاں کئ ہندوستانی زبانوں کے درمیان لکھی اور بولی جاتی ہے۔ لہذا فطری طور پر یہ دیگر زبانوں سے نہ صرف اثرات قبول کرے گی بلکہ خود کو زیادہ ترسیلی بھی بنائے گی۔

دہلی کی ایک شام
19 نومبر 2022