دلاور علی آزر کے مجموعہ سلام ‘بہتر’ پر تبصرہ

یہ تحریر 602 مرتبہ دیکھی گئی

دلاور علی آزر کا مجموعہ سلام بعنوانِ “بہتر” جب منظرِ عام پر آیا تو دل میں خوشی کے ایک احساس نے جنم لیا کہ نعت اور غزل کے ایک بڑے نام کے کیسے عمدہ عمدہ سلام پڑھنے کو ملیں گے۔خدا کا کرنا یہ ہوا کہ آزر صاحب نے برار شاہ کو کتاب بھیج دی اور اس سے ہم نے لینے میں زیادہ دیر نہ کی۔
اب آتے ہیں اس مجموعہ کی طرف۔ سب سے پہلے جب کتاب کو دیکھا تو ڈاکٹر ہلال نقوی کا مضمون سامنے تھا ۔اس مختصر مضمون نے سلام گوئی اور دلاور علی آزر کی سلام گوئی کو الگ زاویہ سے دیکھنے کا ہنر بخشا۔ غلام مصطفیٰ دائم صاحب نے مقدمہ میں تہذیبی حوالوں سے انسانی فکر کے ارتقا سے لے کر سلام میں تغزل کی اہمیت تک پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس پر دلاور علی آزر کی سلام گوئی کے اختصاصات پر بات الگ سے۔ یہ سب تو ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے مگر یہاں ہمارا مقصد دلاور علی آزر کے سلام پر گفتگو کرنا ہے۔
“بہتر” رثائی تہذیب کے تمام رنگوں سے گندھا ہوا مجموعہ کلام ہے۔ اس کے استعارے جہاں ہمیں سورج کی دوپہر کا جلال اور رات کی چاندنی کا تبسم دکھاتے ہیں وہاں دین کے ذوقِ نمو میں حسین علیہ السلام اور ان کے انصار کے روشن وجود کا کردار بھی ایسے انداز سے دکھاتے ہیں کہ شعری لطائف بھی بامِ عروج پر رہتے ہیں اور عقیدت و ارادت بھی۔ زبان کی لطافت ہو یا نفاست یہ مجموعہ فنی و فکری ہر حوالے سے امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ دلاور علی آزر صاحب کو اس مجموعہ کلام کی اشاعت پر مبارک باد مالک با تصدقِ محمد و آلِ محمد آپ کو تا دیر سلامت رکھے آمین ۔ آخر میں شجرِ مودت پر کھلتے ہوئے پھولوں سے کچھ پتیوں کا انتخاب کیا ہے وہ بھی ملاحظہ ہوں
انتخاب:

دھلا جو اشک عزا سے سخن کا آئینہ
کھلا جو حرف کا دفتر سلام پیش کیے

خوش اس لیے تھی یہ زنجیر ماتمی مجھ سے
کہ اس کے بخشے ہوئے زخم کا نشان تھا میں

سب ذرے چمکنے لگے کربل کی زمیں کے
جب دھوپ میں رکھا گیا آئینہ ہمارا

یوں پیاس چھلکتی ہے سر دشت سبو سے
پانی کو علاقہ ہی نہیں جیسے نمو سے

عرصہ قید میں اس موڑ تک آ پہنچے ہم
جہاں زنجیر کی ایک ایک کڑی روتی ہے

روشن تھے اس قدر وہ خدوخال آنکھ پر
چہرے سے اس کے میں نے لگایا سراغ صبح

تب جا کے روشنی کو نئے خال و خد ملے
خیمے میں جب امام نے گل کر دیا چراغ

ہم نے سمجھے تھے رات نکلے گی
دن نکل آیا دس محرم کو

ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا

جس کو غمِ حسین میں کھینچا تھا آنکھ سے
اس اشک کا نمک مرے سارے لہو میں ہے

بہ وقتِ عصر مری کیفیت بدلتی ہے
چراغ طاق پہ دھرتا ہوں گریہ کرتا ہوں

حیرتیں منظر میں گن تھیں آئنہ نیزے پہ تھا
دن نکل آیا تھا اور سورج سوا نیزے پہ تھا

چل رہے تھے ماتمی دستے سلگتی ریت پر
دیویوں کے سر کھلے تھے دیوتا نیزے پہ تھا

میں آزر ان کی امان میں جو سوارِ دوشِ نبی ہوا
مرا دل ہے روضہ حسین کا مری آنکھ منبرِ اشک ہے

غمِ حسین میں آنسو بہائے جب میں نے
پتا چلا کہ مری آنکھ کتنے کام کی ہے

کئی تو آپ کو اپنا بھی کہہ نہیں سکتے
خدا کا شکر مری حیثیت غلام کی ہے

جو ملنے دیتی نہیں روشنی میں ظلمت کو
دن اور رات میں وہ اک لکیر شام کی ہے