میں پامال نہیں تھا
مجھ کو رستے نے پامال کیا ہے
جیون رین اندھیرا جنگل
بوڑھی بیوہ کا سر جس میں
آس کی کوئی مانگ نہیں ہے
میں جنگل کی کوکھ میں اپنی ہوند کا عرصہ کاٹ رہا ہوں
جنگل میری ذات کا ریشم ریشہ ریشہ چاٹ رہا ہے
میں جنگل اور جنگل مجھ میں یونہی محوِ کار ہیں
آخر اس نے جیت کے مجھ کو میرا رستہ سونپ دیا ہے
رستہ مجھ کو ہانک پکڑ کر
اس چوکھٹ تک لے آیا ہے
جس میں چپ کا بند دروازہ
میری جانب گھور رہا ہے
چپ کا منتر پاس ہے میرے
بولوں گا تو کھل جائے گا
پر اس پار بھی جنگل نکلا
رستہ کس کے گھر جائے گا