دروازہ

یہ تحریر 1200 مرتبہ دیکھی گئی

میں پامال نہیں تھا
مجھ کو رستے نے پامال کیا ہے
جیون رین اندھیرا جنگل
بوڑھی بیوہ کا سر جس میں
آس کی کوئی مانگ نہیں ہے
میں جنگل کی کوکھ میں اپنی ہوند کا عرصہ کاٹ رہا ہوں
جنگل میری ذات کا ریشم ریشہ ریشہ چاٹ رہا ہے
میں جنگل اور جنگل مجھ میں یونہی محوِ کار ہیں
آخر اس نے جیت کے مجھ کو میرا رستہ سونپ دیا ہے
رستہ مجھ کو ہانک پکڑ کر
اس چوکھٹ تک لے آیا ہے
جس میں چپ کا بند دروازہ
میری جانب گھور رہا ہے
چپ کا منتر پاس ہے میرے
بولوں گا تو کھل جائے گا
پر اس پار بھی جنگل نکلا

رستہ کس کے گھر جائے گا