دروازہ

یہ تحریر 391 مرتبہ دیکھی گئی

پرانا دروازہ موجود تو تھامگروہ اس بار اتنا پرا نامعلوم نہیں ہورہاتھا۔جس دروازے کو دیکھتے ہوئے ایک عرصہ بیت گیاہو،اس کے بارے میں کوئی بھی رائے یقینی ہو سکتی ہے۔یہ عرصہ کتنے مہینوں اور برسوں پر محیط ہے،اس کا احساس دروازے کے ساتھ کمزور ہوتاگیااور اب میں یہ کہہ سکتاہوں کہ جس دروازے کو کبھی دیکھا تھا وہ یہ دروازہ نہیں تھا۔دو چھوٹے کمرے کے درمیان ایک دروازہ نہ جانے کتنی زندگیوں کو گھر میں پناہ دے چکاتھا۔یہ دروازہ،دروازہ نہیں بلکہ گھر کی مانند تھا۔اس لیے کہ اکثر میں نے دیکھا کہ آنے والے لوگ گھر میں داخل ہونے کے بجائے دروازے پر بیٹھ جاتے اور پھر انہیں اجازت ملتی۔اجازت کاانتظار انہیں بھی ہوتاتھا جو اس گھر کے مکین تھے۔معلوم نہیں لوگ اس کی اجازت کا انتظار کرتے تھے۔کیا کسی غیب سے آنے والی آواز کے منتظر ہوتے تھے یا دل سے نکلنے والی انہیں کسی آوازکاانتظار ہوتاتھا۔دروازہ عام طور پر کھلا رہتا تھا۔مجھے یاد نہیں آتا کہ کبھی دروازہ بند ہوا ہو لیکن دروازہ جو بظاہر کھلا ہو تھا وہ کئی معنوں میں بند بھی تھا۔پہلی بار اس دروازے کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا تھا کہ ہر وہ دروازہ جوکھلا رہتاہے اسے کھلا نہیں سمجھنا چاہیے۔اب تو یہ دیکھنے والی آنکھ ہے کہ وہ کھلے اور بند دروازے کو کس طرح دیکھتی ہے۔کھلادروازہ بند دروازے کے مقابلے میں زیادہ تنگ دل ہوتاہے۔یہ تنگ دلی بند دروازے کامقدر سمجھی جاتی ہے۔مگر جب بند دروازے کو دیکھیے تو لگتاہے کہ جیسے یہ آواز دے رہا ہو کہ مجھ پر تنگی کایہ الزام اس سازش کانتیجہ ہے جو برسوں سے انسانی آبادی کامقدر رہی ہے۔ جو لوگ دروازے کو توڑ کر داخل ہوتے ہیں انہیں یہ نہیں معلوم کہ دروازہ کھول کر داخل ہونے میں کتنی آسانی اور شائستگی ہے۔اب جو دروازے کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دونوں پٹ زمین کی طرف آتو گئے ہیں مگر دونوں پٹوں کازمین سے فاصلہ ایک جیسا نہیں ہے۔چوکھٹ بدستور اپنی جگہ پر قائم ہے لیکن دروازہ چوکھٹ سے وقت کے ساتھ بے تعلق ساہے۔اس دروازے کی عمر کتنی ہے اس کااندازہ اس لوہے سے لگایاجاسکتاہے جودروازے اور چوکھٹ کی ہم رشتگی اور ہم سائگی کاوسیلہ ہے۔اب اس طرح کے لوہے دروازے اور چوکھٹ میں لگائے نہیں جاتے۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دروازہ بند ہوجانے کے بعد بھی دیوار سے کچھ الگ سارہتاہے۔ باہر سے جھانکنے والی آنکھ اندر کچھ دیکھ تو نہیں سکتی مگر اندر اور باہر کی دنیاآج کے دروازوں کی طرح ایک دوسرے سے گریزاں نہیں تھی۔ کیا معلوم کہ اس باراس دروازے کو دیکھنے سے پہلے میرے ذہن میں کون سادروازہ تھا۔جس کی دستک نے میری سماعت کو اتنا متاثر کیاکہ گھر پہنچتے ہی دروازے کے سامنے آگیا۔ایک پرانا اور ٹوٹاسادروازہ میری نظر کے سامنے تھااور میں دروازے پر اس دستک کو دیکھنے اور تلاش کرنے کی کوشش کر رہاتھاجو یہاں آنے سے پہلے مجھے سنائی دی تھی۔ دروازے پر وہ زنجیر اب بھی لگی ہوئی ہے۔جوکبھی ہلا دی جاتی تھی اور مکین بیدار ہو جاتے تھے۔ اس کی موسیقیت کاجادو ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔مگر پھر یہ سوچنے لگا کہ ایک باہر کی دستک کو میں اپنے گھر کی دستک کیوں سمجھنے لگا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ گھر کی دستک باہر آگئی ہو اور میرا پیچھا کررہی ہو۔کیادستک اتنی لمبی مسافت طے کرسکتی ہے۔دستک کی تھکن میرے چہرے سے عیاں ہو رہی تھی یاخود میں دستک ہو گیا تھا۔مگریہ سچ ہے کہ دستک سنائی دے رہی تھی بلکہ مسلسل اس کی آواز میرے وجود کو بکھیر رہی تھی۔اتنے میں بڑے میاں کی آہٹ کااحساس ہوا۔بڑے میاں نے ایک لمبی عمر اسی گھر میں گزاری تھی اور کبھی کبھی وہ مجھے اپنے پاس بلا کر کچھ راز ونیاز کی باتیں کرتے تھے۔مگر یہ باتیں بچوں کے لیے کہانی کی طرح ہیں۔اب مجھے بڑے میاں کی کچھ باتیں یاد آنے لگیں اور ذرا دیر کے لیے دستک کی طرف سے میرے فکر واحساس کی دنیا کسی اور طرف منتقل ہوگئی۔اچانک یہ احساس ہو اکہ مجھے اپنی حالت پر ترس کھا کر اسی زمین پر بیٹھ جانا چاہیے اور دروازے کو ایک مرتبہ پھر غورسے دیکھنا چاہیے۔دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں پتھراتو نہیں گئیں تھیں مگرکچھ پانی ضرورآگیاتھا۔ دروازہ اپنے پرانے دنوں کی یاد تازہ کرنے کے بجائے ایک نئی دنیا کو سمیٹے نظر کے سامنے تھا۔شاید یہ میرا احساس پورے طور پر دروازے کی صورت حال سے ہم آہنگ نہ ہو اس لیے کہ میں ایک لمبا سفر طے کر کے نئی دنیا سے آیا تھا اور وہ دنیا بھی نئی کیا تھی۔ہوا تھوڑی تیز تھی جو زنجیر کو رہ رہ کر ہلا دیتی تھی۔جیسے کہ قدرت نے میری دلدار ی کے لیے ہوا کو بھیجا ہو کہ اس مسافر کو زنجیر کی آواز سنا دی جائے۔زنجیر کی آواز تو گرفتاری کاسامان ہے اور میں پہلے ہی گرفتار ہو چکا تھا۔لیکن کیا ہر زنجیر گرفتاری کاسامان ہوتی ہے۔کم سے کم اس مقام پر بیٹھ کر زنجیرمیرے لیے گرفتاری کاسامان نہیں بلکہ تاریخ کے ایک لمبے سفر کی روداد تھی۔یہ روداد صوت وصدا کی تھی جسے سننے کے لیے میں نے ایک لمباسفر کیا تھا کہ جودستک اس بستی سے دور دیس میں سنی تھی،وہ یہاں آکر دیکھیں کیسی سنائی دیتی ہے۔ اب بھی میرا ذہن پوری طرح قابو میں نہیں تھا۔ہواکی رفتار دھیرے دھرے تیز ہورہی تھی اور زنجیر کی صدا اس ویران گھر میں پھیلنے لگی مگر یہ آواز گھر کے اندر ہی نہیں بلکہ گھر کے باہر بھی تھی۔ جسے ہم گھر کہتے ہیں اس گھر کاتصور تو اب اسی ٹوٹے اور پر سوختہ کھڑکیوں سے قائم ہے۔
زنجیر کی آواز اگر وہ دستک ہوتی تو میری مشکل آسان ہو جاتی لیکن یہ کیاکم ہے کہ ہوا سے ہلنے والی زنجیر یہ احساس دلارہی تھی کہ کسی کے ہاتھ کی انگلیوں نے زنجیر ہلائی ہے۔ اسے انتظار ہے کہ کوئی اس کھنڈر نما مکان سے نکل کر کسی کااستقبال کرے گا۔