خیال خواب اندیش

یہ تحریر 725 مرتبہ دیکھی گئی

کون ہوں مَیں، کہاں ہوں مَیں
مجھ کو کوئی پتہ نہیں

چاند ہوں یا کہ چیتھڑا
دُھوپ کا جس کو دوپہر
بھول گئی ہے سرمئی
شام کی اک منڈیر پر

تین ہزار سال سے
تین ہزار بھیڑیے
نوچ رہے ہیں رات دِن
میرے بدن سے بوٹیاں
جانے وہ کون آگ ہے
جس میں دہک رہا ہوں مَیں
جانے وہ کون باغ ہے
جس میں مہک رہا ہوں مَیں

جانے وہ کون خواب تھا
جس نے مجھے بھلا دیا
جانے وہ کیا شراب تھی
جس نے مجھے گنوا دیا

نورِ سرورِ بے بہا
ہوں جو شراب میں نہیں
تین ہزار سال سے
مَیں کسی خواب میں نہیں

مجھ کو کوئی پتہ نہیں
کون ہوں مَیں کہاں ہوں مَیں
لیٹا ہوا ہوں گھاس پر
دیکھ رہا ہوں آسماں