خود پسند ادیب کا روزنامچہ

یہ تحریر 711 مرتبہ دیکھی گئی

میرے بزرگوں
اور میرے دوستوں
اور میرے شاگردوں نے ،
میری ذات گرامی
اور میرے فکر عالی
اور میرے کمال شعری پر
ہزاروں مقالے رقم کیے ہیں ،
لاکھوں اوراق کالے کیے ہیں ،
سیاہ روشنائی کے
خم کے خم لنڈھائے ہیں ؛
مگر میں اس نقاد کا منتظر ہوں
جو ابھی پردہ غیب میں ہے ،
جو کسی حسین شام کو
یا سعید صبح کو ظاہر ہو گا
اور دربار سخن میں میری تاج پوشی کرے گا ،
مجھے خلعت فاخرہ پہنا کر
تخت طاؤس پر متمکن کرے گا
اور میرے نام کا سکہ جاری کرے گا ،
میں اس نقاد کا منتظر ہوں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔