وہ پرانے کلچر کی نئی دکان پر
گھنٹوں ایک ہینڈ بیگ چننےمیں صرف کرتی ہے
وہ جیسا بھی پوز بناتی ہے
ہر اینگل سے آئینے میں دیکھ نہیں پاتی
چکور شکل کے اڑتے ہوئے پیپرز پر
اس کے ہر پوز کا سکیچ بن جاتا ہے
چھوٹے سرخ پھولوں والی سفید قمیض پر
سمندری ہرے رنگ کا پرس کیسا لگتا ہے؟؟
ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں چار
ہاں چار!!
سرو کے جمگھٹے میں، چوٹیوں کو چھوتا ہوا
چار منزلوں والا لکڑی کا ایک جھونپڑا ہے
چوتھی منزل کی داہنی طرف کی کھڑکی سے
وہ نیچے کہیں دور تم کو دیکھتی ہے
تمہارے ہاتھ میں اسکے سکیچز ہیں
تمہارے ہونے کا احساس ہے اسے
مگر لفظوں کی دوری پر
اسکی سوچ کے سکیچز بن کر
تمہاری جانب بڑھ جاتے ہیں
اس سے آگے لفظ مگر
قدموں کی مانند رک جاتے ہیں
جیسے کہ
م ممممممممممممں۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایک حرف کا ایک ایک قدم ہے
گویا تم اس سے کسی جملے کے فاصلے پر ہو
وہ تم کو اور تم اسکو دیکھ رہے ہو
لیکن یہ سب کسی اور زبان میں ہے
اسکو لفظ نہیں حرف یاد ہیں
م ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ر ۔ ۔ ۔ ۔ ک ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی فل سٹاپ یا کوما بھی نہیں
فاصلہ بہت مسلسل ہے
بنا کسی پاز کے۔ ۔ ۔
اماں کی آواز آئی:
“نماز پڑھ لو”
فرض پڑھے یا سنت
نیت اسے یاد نہیں
خواب سارا یاد ہے!!!
Pic:The German Romantic Museum!