”خمار خواب“ از ابھے بیباک

یہ تحریر 2111 مرتبہ دیکھی گئی

          بہت دن پہلے ایک صاحب (بلکہ صاحب زادے) سے ملاقات ہوئی۔ابھے بیباک  پولیس میں بڑے افسر تھے، اور ماشاء اللہ ترقی کی راہ پر گامزن۔(اب وہ ایڈیشنل ڈی۔جی۔پولیس ہیں، اللہ مزیدترقی مراتب کرے۔)بات چیت کا لہجہ درست، اردو با محاورہ، میں خوش ہوا کہ شعر گوئی کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔انھیں شاید معلوم تھا کہ میں کسی سے بھی فرمائش نہیں کرتا کہ شعر سنائیے۔لہٰذا باتیں مہذب لوگوں جیسی، ادھر ادھر کی ہوئیں۔پھر وہ اپنی راہ پر لگے، میں اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا۔

          کئی سال گذرے۔ایک دن مجھے کسی اور حوالے سے یاد آیا کہ وہ پولیس والے نوجوان بھی تو شاعر تھے۔کہاں گئے، کیا ہوا، کچھ معلوم نہیں۔پھر ایک دن وہ مجھ سے ملنے بھی آگئے، وہی مہذب لہجہ، وہی اعتماد شعر گوئی،لیکن شعر سنانے کی پیشکش انھوں نے نہ کی، اور میں تو خیر پوچھ کر دینے والا تھا ہی نہیں۔میں نے یہ ضرور کہا کہ ”شب خون“ کے لئے کچھ کلام بھیجو، میرے مطلب کا ہو گا تو شائع کروں گا۔انھوں نے ازراہ انکسارکہا، ’بہت خوب‘،لیکن کلام انھوں نے بھیجا نہیں۔یہ اداے خود فراموشی مجھے اچھی لگی۔جی خوش ہوا کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں۔ پھر میں انھیں بالکل ہی بھول گیا، نام بھی ذہن سے محو ہو گیا۔ایک دن اچانک میری ایک پرانی صحافی ملاقاتی محترمہ بالا چوہان کا فون آیا۔ جب وہ الٰہ آباد میں تھیں تو اردو سے دلچسپی کے باعث کبھی کبھی،کہیں کہیں دکھائی دے جاتی تھیں۔پھر وہ بنگلور چلی گئیں اور ان کی مہربانی کہ مجھے وہاں بھی نہیں بھلایا (بخشا؟)۔ایک آدھ بار میں بنگلور گیا تو ان کا فون آیا، اردوادب، ترقی اردو کونسل،وغیرہ کے حوالے سے کچھ بات ہوئی۔ایک بار انھوں نے بنگلور سے الٰہ آباد فون کیا۔ کسی معاملے میں میری رائے (یا صحافیانہ زبان میں ’رد عمل‘)مطلوب تھی۔ان سے کبھی ذکر نہیں آیا کہ ان کی قرابت اس پولیس والے نوجوان سے بھی ہے، اور پولیس والے کا نام تو میں بھول ہی چکا تھا۔تو اس بار کے فون میں انھوں نے بتایا کہ ابھے بیباک ایڈیشنل ڈی۔جی۔ پولیس،وغیرہ، ان سے قرابت قریبہ رکھتے ہیں اور انھوں نے فرمائش کی ہے کہ میں خود جا کر ان کا مجموعہ آپ کو پیش کروں۔”آجائیے،“ میں نے کسی دلچسپی کے بغیر کہا، لیکن اب مجھے ان پولیس والے بابو کا نام ٹھیک سے یاد آگیا، ابھے کمار بیباک۔

          بالا چوہان مجموعہ مجھے پہنچا گئیں، نام دیکھا تو دل کچھ متاثر نہ ہوا، ”خمار خواب۔“ خیر، میں نے پڑھنا شروع کیا اور جلد ہی میری بے دلی کی جگہ کچھ حیرت اور کچھ مسرت نے لے لی۔ یہ شخص تو سنجیدہ قسم کا شاعر ہے۔مجھے ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو ابھی نسبۃًکم عمر ہیں اور بالخصوص یہ کہ شاعری ان کا ذوق ہو، پیشہ نہ ہو۔کچھ ایسے بھی لوگ ہیں  جیسے ایک صاحب (میں ان کا بھی نام بھول گیا) کہ وہ جب مجھ سے ملے تھے تو گجرات میں ایڈیشنل چیف سکریٹری تھے(یہ نریندر مودی والا گجرات نہ تھا)۔ وہ رسم الخط بالکل نہیں جانتے، نہ لکھنا نہ پڑھنا، دیوناگری میں اردو شعر کہتے ہیں۔نہایت سلیس اور شگفتہ شعر، لیکن ان میں کوئی ندرت بھی نہیں۔ میں نے ان کا دل بڑھایا ور کہا کہ رسم الخط بھی سیکھ لیجئے تو نورٌعلیٰ نور ہو جائے۔ایک اور ہمارے دوست سونو نام کے ہیں جن کاکلام میں نے ”شب خون“ میں بہت چھاپا ہے۔انھوں نے اردو سیکھی اور لکھنا بھی سیکھا۔وہ ہمیشہ املا کی غلطیاں کرتے ہیں لیکن اردو لکھنے کی مشق بڑھاتے رہتے ہیں۔شاعر وہ بہت عمدہ ہیں۔

          ابھے بیباک نے اردو لکھنا پڑھنا ہی نہیں، اردو عروض بھی سیکھا، رباعی کی بھی طرف توجہ کی۔وہ اب بھی سیکھتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب فون پر بات ہوئی اور میں نے ان سے کہا کہ ”خمار خواب“ کچھ بہت اچھا نام نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ اردو کے جن لوگوں میں ان کی نشست و

بر خاست رہتی ہے، انھوں نے تو نام پسند کیا تھا۔ میں نے کہا، سہی، لیکن ذرا اورغور ضروری تھا۔پھر میں نے کہا کہ تم نے اپنا نام ”ابھئے“ کیوں لکھا ہے؟ تو انھوں نے وہی جواب دیا کہ جن لوگوں نے انھیں اردوسکھائی ہے انھیں نے یہی املابھی سکھا یا تھا۔ میں نے کہا کہ حسب ذیل ا لفاظ ایک ہی طرح بولے اور لکھے جاتے ہیں:

          جے، اجے، مے،شے، نے، بھے، ابھے، طے،ہے،وغیرہ۔

ان میں ہمزہ لکھو گے تو تلفظ یوں ہو جائے گا:

          جَ اے، اَ جَ اے، مَ  اے، شَ اے، نَ اے، بھَ اے، ابھَ اے، طَ اے، ہَ اے،وغیرہ۔اردو میں ہمزہ اکثر جگہ الف کا قائم مقام ہوتا ہے۔انھیں تعجب ہوا کہ یہ بات انھیں استادوں نے نہ سمجھائی تھی۔ خیر، بعد میں اخباروں میں جب ”نربھے“ نام عام ہوا (انگریزی املا میں Nirbhaya)تو مجھے دیکھ کر رنج ہوا کہ اکثر اردو اخباروں نے اسے ”نر بھیا“ لکھا تھا، اورند افاضلی جیسے پڑھے لکھے، صاحب ذوق شاعر نے ”نر بھیہ“لکھا۔ اگر ہمزہ اور الف کا تفاعل ٹھیک معلوم ہوتا تو ایسی غلطی نہ ہوتی۔

          خیر، میں ابھے (یا ا بھئے)کو کیا دوش دوں، افسوس یہ کہ کسی بھی اخبار میں کوئی مراسلہ میں نے نہیں دیکھا کہ صاحب، یہ ”ابھے“ اور ”نر بھے“ ہیں، ”ابھئے/ابھیہ؛ نربھئے/نر بھیہ/نربھیا“نہیں۔ ہمارے پاکستانی اردو والے تو ہمزہ کو بے حساب اور بے دردی سے استعمال کرتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔

          منھ(منہ، یا مونہہ، یا منہہ نہیں) کا مزا بدلنے کے لئے ابھے بیباک(معلوم نہیں لوگوں پر یہ نکتہ فاش ہوا کہ نہیں کہ ابھے اور بیباک ایک ہی ہیں) کی دو چار رباعیاں سنتے ہیں    ؎

          ہم پر ہے نہ کرگس نہ ہما کا سایہ

          ہاتھوں میں ہے محنت کا فقط سرمایہ   

          پینا ہے کنواں کھود کے پانی ہر دن

          حصے میں یہی ہم نے مقدر پایا

                   ٭

          آنکھوں میں رہا موسم گل کا نہ خمار

          لگتا ہے کہ اب باغ سے غائب ہے بہار

          تجھ کو ہے تجسس کہ خزاں چیز ہے کیا

          آکر کوئی دن تو بھی مرے ساتھ گذار

                   ٭

          بس تھوڑی ہوا اور نمی توہو کہیں

          اتنا ہی تو چاہے کوئی زر خیز زمیں

          لیکن یہ ہمیں جو بھی ہے دینے والا

          دھرتی پہ کہ گردوں پہ ہے یا ہے ہی نہیں

                   ٭

          جب بھی تیرا خیال آتا ہے دوست

          سانسوں میں اک ابال آتا ہے دوست

          تھوڑی جو گفتگو بھی اپنی ہو جائے

          واپس کب اعتدال آتا ہے دوست

          کہیں کہیں آہنگ میں ذرا سی کھٹک محسوس ہوتی ہے،لیکن ان رباعیوں کا شاعر بات بات پر بے مصرف اور بے روح رباعیاں کہنے والا شاعر نہیں ہے۔آج کل ہمارے یہاں رباعی کا جوش ہے، دھڑا دھڑ مجموعے رباعیات کے چلے آرہے ہیں۔مگر انھیں دیکھ کر رنج ہوتا ہے کہ وزن و بحر کے سوا وہاں کچھ بھی درست نہیں۔ابھے بیباک کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہاں سوچتا ہوا ذہن ہے،مزاج میں پختگی ہے۔ یہاں تھوڑی سی کلبیت ہے جو آج کے فارمولا بند رباعی گویوں کے بس کی بات نہیں۔ یہاں طنز ہے، خود پر، کائنات پر، عشق و محبت کے ]جھوٹے یا سچے[ کا رو بارپر۔عمومی لفظوں سے پرہیز کی کوشش ہے،جو ہر جگہ کامیاب نہیں ہے،لیکن غیر عمومی لفظوں کو برتنے کی جر أت تو ہے۔

          غزل کے ساتھ مشاعرے کی بڑی قاتل بلا لگی ہوئی ہے۔ غزل کہنے والا مشاعرے میں جاتا ہو یا نہ جاتا ہو،لیکن اسے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ غزل، یا یہ شعر، مشاعرے میں کامیاب ہو گا کہ نہیں؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غزل کی ساری شاعری زبانی پن کی تہذیب کاتفاعل ہے۔پہلے زمانے کامشاعرہ اگر اکھاڑہ تھا توکارگاہ بھی تھا۔ لوگ وہاں زمین پر پٹکے جاتے تھے تو نئے نئے داؤ پیچ بھی سیکھتے تھے۔ دھیرے دھیرے مشاعرے کی یہ دونوں قوتیں گھٹتی گئیں۔ اس اجمال کی تفصیل کبھی اورعرض کروں گا، لیکن مشاعرے کا سب سے بڑا فائدہ(یا نقصان) یہ ہے کہ شعر گوئی اور استعارہ، یعنی مضمون آفرینی کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب چند مضمون ہیں، چند استعارے اور چند ہی پیرائے جو کم پڑھے لکھے سامعین کے دل تک پہنچتے ہیں۔اب ہر شاعر تو محبوب خزاں یا انور شعور یا ندا فاضلی تو نہیں کہ سامنے کی کسی  بظاہر معمولی بات کے لئے کوئی نیا پیرایہ پیدا کر دے   ؎

          گر یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو

          محبوب خزاں رات کو گھر کیوں نہیں جاتے

                   ٭

          یہیں بیٹھے بیٹھے انھیں یاد کر لو

          شعور آ ج کوئی سواری نہیں ہے

                   ٭

          تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو

          جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

          یہ آخری شعر ندا فاضلی کا ہے، اور غیر متوقع پیرایہئ بیان کی عمدہ مثال ہے۔ اس طرح کے شعر مشاعروں میں ”ہٹ“ بھی ہوجاتے ہیں، مگر زیادہ تر شعروں کو پختگی اور صفائی بیان اور طباعی کی اس منزل سے کہیں بہت دور دم توڑ دینا پڑتا ہے۔دوسروں کے خراب شعروں سے مثال دے کر اپنی زبان اور آپ کا سامعہ کیوں خراب کروں،ابھے بیباک کے بعض اچھے شعروں کی مثال دیتا ہوں    ؎

          خموشی اس طرح طاری ہے اپنی بستیوں میں اب

          کہ اک پتے کی جنبش پیڑ کی گفتار ہو جائے

”پیڑ کی گفتار“ نے شعر کو سولی پر چڑھنے سے بچا لیا۔ اسی طرح، اس شعر میں ”زاغ“ کو سنئے   ؎

          وہ انتظار کرے گی کسی کے آنے کا

          جو بولتا ہوا آنگن میں زاغ دیکھے گی

”زاغ“ خلاف محاورہ سہی، لیکن میر انیس نے بھی کہا تھا ع

          ظالم نے رن میں آ جوپیا ڈگڈگا کے آب

اچھے مصرعے کی خاطر کبھی کبھی محاورے کی گردن مارنی پڑتی ہے۔ بودلیئر کا حکم تھا کہقافیے کی گردن مار دو،

تو اسی وجہ سے تھا کہ قافیہ کی مجبوری سے آدمی ادبدا کر  Cliche لکھ جاتا ہے۔یہاں قافیے کا معاملہ نہ تھا،لیکن صورت حال ویسی ہی تھی۔ابھے بیباک کو نامانوس لفظوں سے محبت ہے، یہ اچھی بات ہے۔لیکن ابھی وہ زیاہ تر مانوس ہی جذبات میں گرفتار ہیں اور اس حد تک ان کی غزل کچھ اگلے شعرامثلاً ناصر کاظمی کی بھی یاد دلانے لگتی ہے   ؎

          شب ڈھلی محفل اٹھی اب گھر چلیں

          ہر طرف ہے خامشی اب گھر چلیں

          دیکھ کر صحرا میں خواب گلستاں

          تھک چکی ہے رہروی اب گھر چلیں

          کوئی تو بیباک ہو گی منتظر

          موت ہو یا زندگی اب گھر چلیں

اس غزل پر ناصرکاظمی کی مشہو رغزل، جس کی ردیف ”سو رہو، سو رہو“ہے، اس کا کچھ نہ کچھ پرتو ضرور پڑ رہا ہے    ؎

          منھ ا ندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل دئیے

          دور ہے صبح روشن ابھی سو رہو سو رہو

لیکن ابھے بیباک کے یہاں (خاص کر دوسرے اور تیسرے شعر میں)طنز کا ایک پہلو ہے۔ناصر کاظمی کی غزل، بلکہ عام طور پر ان کی پوری شاعری،طنز سے کچھ زیادہ علاقہ نہیں رکھتی۔اسی طرح، حسب ذیل اشعار میں کہیں کہیں میر کا فیضان ہے، حالانکہ میر کی سی چابک دستی اور کثیر المعنویت ابھی ہمارے شاعر کی طاقت سے بہت بعید ہے   ؎

          سطح ناز وا دا سے ابھرو تو

          کوچہئ دل سے میرے گذرو تو

          اب زمیں بھی سمٹ گئی ہے بہت

          تم بھی کچھ آسماں سے اترو تو

          جان لو گے روش محبت کی

          اپنے وعدے سے تم نہ مکرو تو

          دشت خوشبو کے سچ سے واقف ہے

          کھل کے پھولوں کی طرح نکھرو تو

          میر کی غزل سب کو یاد ہو گی (بلکہ یوں کہوں کہ یاد ہو نا چاہیئے)    ؎

          گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو

          آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

          عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے

          آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو

          پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے

          یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو

          میر کی سی معنی کی فراوانی، کائناتی حقائق کی طرف اشارہ، اور ردیف کا بیحد عمدہ اور معنی خیز استعمال، یہ سب ابھے بیباک سے بہت دور ہیں، لیکن وہ راستہ میر ہی کا چل رہے ہیں۔ذرا چند شعر اور سنئے    ؎

          ہم پر کرم تم نے کیا کیا دیکھ کر کیا سوچ کر

          پھر بھی ستم ہم نے سہا کیا دیکھ کر کیا سوچ کر

          گذری کہاں پھر شہر کی بے جان وہ تاریک شب

          وہ بام پر آیا نہ تھا کیا دیکھ کر کیا سوچ کر

          اس کے آگے، بہت آگے، میر ہیں، اس طرح   ؎

          اے مجھ سے تجھ کو سو ملے تجھ سا نہ پایا ایک میں

          سوسو کہیں تو نے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں

          یہ جوش غم ہوتے بھی ہیں یوں ابر تر روتے بھی ہیں

          چشم جہاں آشوب سے دریا بہایا ایک میں

          اب اس کو کیا کیجئے کہ میر کی سی روانی، میر جیسا آہنگ کا تنوع،غالب کو بھی نہ ملا۔صرف میر انیس اور اقبال ان کے سامنے ٹھہرتے ہیں، ہما شما کی کیا بات ہے۔یہاں ابھے بیباک تذکرے میں آجائیں، یہی بہت ہے۔

          مشاعرے کی شاعری، شعر کے بدن پر حسین بچوں کے بدن کی چربی (Puppy fat)جیسی ہوتی ہے۔ شاعر جیسے جیسے ترقی کرتا ہے، وہ چربی چھٹتی اور گھلتی جاتی ہے۔ بیباک صاحب مشاعروں میں شاید جاتے نہیں ہیں، لیکن وہ مشاعروں کی فضا سے بچ بھی تو نہیں سکتے۔ان کو میری نصیحت یہی ہے کہ وہ Puppy fatکو مزید مشقت اور ریاض فن کے ذریعہ گھلاڈالیں۔ توپھر دیکھئے جب یہ پانی چلا ٭٭٭