حسن منظر کا افسانہ: رہائی

یہ تحریر 2503 مرتبہ دیکھی گئی

فکشن میں ہر کہانی کار کا، کہانی بیان کرنے کا، اپنا طریقہ ہوتا ہے۔اس اٹکل میں کچھ مظاہر ایسے ہوتے ہیں جو اُس کے احساس کے ساتھ مِل کر منظر کے بیان میں چمک پیدا کر دیتے ہیں۔ کوئی سفر (اس میں داخل اور خارج کی تخصیص نہیں)، کوئی خبر، کوئی خواب، کوئی واقعہ کہانی کار کی زندگی میں اس طرح جگہ بناتا ہے کہ ایک خاص وقت تک (جب تک وہ اسے بیان نہ کر دے) اُس کی زندگی بے چینی کا شکار رہتی ہے۔ اس نوعیت کی حرماں نصیبی ہر سچے تخلیق کار کا مقدر ہے اور وہی اس تقدیر کو گلے لگا کر زندگی کر سکتا ہے۔

آج کل کے ادب میں مشینی ایجادات کے ساتھ ساتھ، نئی نئی ادبی تھیوریوں کی آمد آمد ہے۔ مشینی ایجادات کے کار آمد یا بے کار ہونے کا تو مجھے پتا نہیں البتہ تنقید کی یہ نت نئی نظری بنیادیں، تخلیق کی بچی کھچی تاثیر کو (ختم تو خیر کیا کریں گی) کم زور ضرور کر دیں گی۔

اس عالم میں حسن منظر کا لگ بھگ پینتیس برس پہلے لکھا جانے والا افسانہ ”رہائی“ پڑھنے کو ملا۔ تنقیدی تھیوریوں کے معمار اپنی تحریروں میں انسانی زندگی کے تضادات تو بہت بیان کرتے ہیں مگر افسوس کہ وہ تضادات سماجیات یا معاشیات سے اخذ کرتے ہیں، ادب سے ہرگز نہیں۔ ایک ادبی نقاد کا بڑا ماخذ ادب ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے جب کہ دیگر علوم کی حیثیت ایک ثانوی حوالے سے زیادہ نہیں۔ کاش ان لکھنے والوں نے رہائی، حرامجادی، ہماری گلی، کفن، بُو، زرد کُتا، سواری، باسو دے کی مریم، طاؤس چمن کی مینا، گائے، بجوکا، آنندی، سوار، گرم کوٹ، آدمی، سائبیریا، سمے کا بندھن جیسے افسانوں کو اپنے مطالعے کا مرکز بنایا ہوتا۔

حسن منظر کا یہ افسانہ اُن کے افسانوی مجموعے ”رہائی“ میں شامل ہے۔ ”رہائی“ حسن منظر کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے اس کے بعد اُن کے پانچ افسانوی مجموعے مزید شائع ہو چکے ہیں۔ ”ندیدی“، ”انسان کا دیش“، ”سوئی بھوک“، ”ایک اور آدمی“، ”خاک کار تبہ“۔ حسن منظر نے ہندی سے اردو تراجم بھی کیے۔پریم چند کا ادھورا ناول ”منگل سوتر“ اور پریم چند کی بیوی شو رانی دیوی کی تحریر ”پریم چند گھر میں“ان کے وہ تراجم ہیں جو حسن منظر نے ہندی سے اردو میں کیے۔ بچوں کے لیے کہانیاں ”جان کے دشمن“ کے علاوہ ناول میں ”العاصفہ“، ”دھنی بخش کے بیٹے“، ”وبا“ اور ایک جلد میں دو ناول ”ماں بیٹی“ اور ”بیر شیبا کی لڑکی“ حسن منظر کی افسانوی دنیا کی تفصیل ہے۔

زیر مطالعہ کہانی ”رہائی“ کا آغاز ان سطروں سے ہوتا ہے:

”زندگی میں کوئی چیز اگر نفرت کیے جانے کے لائق ہے تو وہ نفرت ہے۔ مجھے صرف نفرت سے نفرت رہی ہے۔ میں کچھ لوگوں سے نفرت کیوں نہیں کر سکتی تھی اس پر میرے ماتا پتا اکثر ناراض ہو جایا کرتے تھے اور میں کچھ لوگوں سے نفرت کیوں نہیں کرتی ہوں بعد میں اسی بات پر میرے سسرال والے مجھ سے نفرت کرنے لگے۔“

اس کہانی کی تفہیم میں مرکزی کردار، جو ایک ہندو خاتون ہے، کی زبان سے ادا کیے گئے یہ الفاظ ہماری بہت مدد کریں گے۔ ان سطروں سے ایک بات تو طے ہے کہ جس کی زندگی ہے، اُسے اُس پر اختیار نہیں۔ اس امر کا تعین کوئی دوسرا کر رہا ہے (وہ والدین اور سسرال ہی کیوں نہ ہو) کہ مرکزی کردار کو کس سے محبت کرنی ہے اور کس سے نفرت۔ یعنی اختیار نام کی چیز اس مرکزی کردار کی زندگی میں نہیں۔ مگر بات اتنی نہیں۔ حسن منظر نے اس کہانی میں ہند اسلامی تہذیب میں جنم لے کر سرایت کر جانے والے بڑے المیے کی طرف سمت نمائی کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ المیہ کون سا ہے۔

اس المیے کی کھوج کے لیے ہمیں کہانی کی جزئیات کو دیکھنا ہوگا۔ اس کہانی میں حسن منظر نے دین دھرم کے نام پر نفرت اور باطنی منافقت کا پردہ چاک کرنے کے لیے تین طبقات کو اس کہانی میں دکھایا ہے۔ ہندو، مسلمان اور لادین معاشرت۔ ہندوؤں کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں اس منظر کو دیکھنا ہوگا:

”پورب سے پچھم اور پچھم سے پورب آتے جاتے ہم ٹرین میں بارہا گنگا پر سے گزرے تھے۔ ہر مرتبہ سمے آنے سے پہلے ہی میری ماں مُٹھی بھر دوّنیاں، چونیاں ہاتھ میں سنبھال کر بیٹھ جاتی تھیں اور ہم سب کے ہاتھوں میں بھی تھوڑی تھوڑی ریزگاری ہوتی تھی۔“

ظاہر ہے مرکزی کردار کی ماں کے پاس یہ ریزگاری گنگا میں پھینکنے کے لیے ہوتی تھی۔ یہاں ہندو اور مسلم معاشرے میں اشتراک نظر آتا ہے۔ مسلمان بھی چلتے پانی میں چونیاں پھینکتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان اس خیال کے ساتھ پھینکتے ہیں کہ ہم حضرت خضرؑ کی جو زندہ پیر ہیں، نذر کر رہے ہیں۔ کہانی کار کا مقصد شاید یہ ہے کہ مرکزی کردار کے والدین کے ہاں بہت زیادہ تضادات یا نفرت نہیں تھی۔ اس نفرت کا بیج پُرانا نہیں بلکہ کسی بدنظر کی طرف سے لگایا جانے والا نیا بُوٹا ہے۔

کہانی اس کی یہ ہے کہ ایک ہندو گھرانے کی لڑکی کے اولاد نہیں ہوتی۔ اولاد کے حصول کی خاطر اُسے گنگا اشنان کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ واپسی پر اُس کا شوہر جو ہندووانہ رسومات کا احترام کرتے ہوئے اُسے اپنے ساتھ ٹرین میں ایک ہی سیٹ پر بٹھانا پسند نہیں کرتا۔ مجبوراً اُسے الگ بیٹھنا پڑتا ہے۔راستے میں ایک مسلمان ٹکٹ چیکر مرکزی کردار کو اکیلا سمجھ کر اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ مرکزی کردار کی عزت کسی طرح بچ جاتی ہے۔ مسلمان ٹکٹ چیکر پر مقدمہ درج ہو جاتا ہے لیکن مرکزی کردار کی زندگی میں ایک کبھی نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اُس کا سسرال اُس سے اس لیے نفرت کرتا ہے کہ اسے کسی مسلمان نے چھُوا ہے۔ دوسری طرف مسلمان کردار کی رہائی کے لیے بڑے بڑے پیر فقیر وظائف کر رہے ہیں۔ مسلمان کردار اپنے بیان میں خود کو عدالت کی نظر میں پاک صاف ظاہر کروا لیتا ہے۔ مرکزی کردار اپنے بھائیوں کے ہاں بدیس چلا جاتا ہے اور مسلمان کردار رہا ہو کر ہنسی خوشی اپنی بیوی کے ساتھ رہنا شروع کر دیتا ہے۔ مسلمان کردار کی رہائی پر کالا مُرغا ذبح کرکے صدقہ دیا جاتا ہے۔

مگربات اتنی سادہ نہیں جس طرح میں نے بیان کر دی ہے۔ یہاں رُک رُک کر سمجھنا ہوگا کہ رہائی اگر بہترین کہانی ہے تو کیوں ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اُس کے شوہر نے اُسے اکیلے کیوں ڈبے میں بیٹھنے دیا۔ اُس کی انا اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھنے میں محفوظ تھی یا پھر الگ بیٹھنے میں۔ یعنی ہم نے خود ساختہ معیارات بنائے ہوئے ہیں جن کوہم اپنی کھوکھلی نخوت سے مضبوط کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ اولاد حاصل کرنے کے لیے گنگا میں اشنان کرنے جا رہے تھے جس کی زیادہ طلب مرد کردار کے دل میں تھی۔جزئیات میں حسن منظر نے ایک منظر دکھایا ہے جس میں ایک باپ ڈبے سے اپنی بیوی کا سامان اور بچہ اُتار رہا ہوتا ہے۔ سامان اور بچہ اُتارنے کے بعد ٹرین چل پڑتی ہے اور عورت چیخنا شروع کر دیتی ہے۔ میرا بچہ، میرا بچہ۔ شاید کہانی کار یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایسا نہیں کہ عورت نہیں چاہتی کہ اُس کے اولاد نہ ہو۔ عورت کا اضطراب اس منظر میں مرد سے زیادہ ہے:

”عورت رو رہی تھی۔ مرد اسے چمکار کر بولا: اگلے اسٹیشن سے بیل گاڑی کرکے واپس چلے جائیں گے، رو کیوں رہی ہے۔ اتنی دیر تو بچے کی دیکھ بھال وہاں کوئی نہ کوئی کر ہی لے گا۔“

دوسری سطح پر مسلمان کردار کی مدد سے منافقت کی پردہ کشائی کی گئی ہے کہ اُس کے مذہب میں دست درازی حرام ہے مگر اُس کی رہائی کے لیے منتیں مانی جا رہی ہیں۔ یعنی ہم چاہتے ہیں کہ ہم ظلم بھی کریں اور پھر وظائف پڑھ کر اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کریں۔ مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔

مرکزی کردار کی دوستی مسلمان خاتون سے بھی ہے مگر وہ اپنے سُسرال سے ڈرتی ہے۔ اس سے تو یہ پتا چلتا ہے کہ سارے ہندو مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے اور سارے مسلمان ہندوؤں سے متنفر نہیں بس کہیں کہیں جہاں تربیت کی کمی رہ گئی ہو۔ چونکہ مرکزی کردار کی تربیت تعصب سے پاک معاشرت میں ہوئی ہے اس لیے اُس کی سوچ بھی پاک ہے۔

کہانی کار اس کہانی کی مدد سے بتانا یہ چاہتا ہے کہ نفرت کی تعلیم مذہب نہیں دیتا۔ یہ ہماری اپنی ”ریاضت“ کا نتیجہ ہے۔

آخر میں وہ دریا جو یہ تخصیص نہیں کرتا تھا کہ اُس میں پیسے پھینکنے والی مُٹھی مسلمان کی ہے یا ہندو کی۔ پانی گدلا ہو گیا ہے۔ اس دریا کو گدلا کس نے کیا۔ یہ گدلا پن دونوں مذاہب کی باہمی منافقتوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس ایک وہ معاشرت بھی ہے جو بیئر تو پیتی ہے مگر جھوٹ اور منافقت سے دور ہے۔ انھیں ہم لادین کہتے ہیں۔

ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ہم نے فرسودہ اقدار کو چھوڑنا ہے اور سچ پر  زندگی کی بنیادرکھنی ہے تو ہمیں ”رہائی“ جیسے فکشن کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ ایسا حصہ جو صاف ہے گنگا کے پانی کی طرح، جو حسن منظر جیسے کہانی کاروں کو ساقی کوثر عطا کرتے ہیں۔ مذہب تو انسانیت کو تہذیب سکھاتا ہے۔ مذہب نفرت اور قتل کی ترویج نہیں کرتا اور جو بلاوجہ ایسا کرتا ہے اُسے اپنے مذہب/دھرم کی وضاحت کرنی پڑے گی۔

”رہائی“ میں کہنے کو تو سب کو رہائی مل جاتی ہے۔ مرکزی کردار کو اپنے خاوند اور سُسرال سے، شوہر اور سسرال کو اپنی بیوی اور بہو سے، مسلمان کردار کو جیل سے، مگر ایسا لگتا ہے یہ سب آزادیاں برائے نام ہیں۔ سب کے سب اپنی اپنی سطح پر، اپنی اپنی روایات کے غلام ہیں۔ مرکزی کردار بدیس جا کر بھی گوشت نہیں کھاتی۔ حالانکہ اُن معاشروں میں ایسی کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں ہے۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ حسن منظر نے رہائی نام کا عنوان طنزیہ طور پر رکھا ہے اور اس طنز کی کاٹ بھی بہت گہری ہے۔ رہائی ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ آخر یہ بہروپ کسی بھی چہرے پر کب تک سج سکتا ہے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/