حاصل، لا حاصلی

یہ تحریر 1015 مرتبہ دیکھی گئی

میں اپنے کمرے میں کمپیوٹر کا کام کرنے میں مصروف تھا کہ اس نے کمرے میں آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے ایک اچٹتی سی نگاہ روبینہ پر ڈالی۔ وہ درمیانے قد، قدرے سانولے رنگ اور معمولی خد و خال کی لڑکی تھی۔ اپنے پروگرام کے آخر پر تحقیقی مقالے کی تکمیل کے لیے میری زیر نگرانی کام کر رہی تھی۔ میں گزشتہ چند برسوں سے شہر میں بننے والی یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ تھا۔ پڑھانے کے علاوہ میرے پاس چند انتظامی ذمے داریاں بھی تھیں جو کہ بہتر طور پر کرنے کے لیے مجھے کمپیوٹر کی سہولت میسر تھی۔ میں اس وقت بھی ایک دفتری خط کا جواب ٹائپ کر رہا تھا۔

وہ اندر داخل ہوئی اور پوری میز کا چکر کاٹ کر میرے بائیں جانب موجود کرسی پر بیٹھ گئی۔ میرے پاس کئی لڑکیاں تحقیقی کام کر رہی تھیں اور اپنی سہولت کے لیے میں نے ان سب کے لیے بدھ کے دن گیارہ سے ایک بجے تک کا وقت مخصوص کر رکھا تھا۔ روبینہ کئی ہفتوں کے بعد آئی تھی اور آج بدھ کا دن بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنی نظریں کمپیوٹر سکرین پر جمائے جمائے سرسری انداز میں اس سے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ اس کے جواب سے جیسے پانی میں بہت بھاری پتھر پھینک دیا ہو، میرا ہاتھ ایک لمحے کے لیے ساکت ہوا، لیکن چوں کہ میں بہت سے لوگوں کی طرح صرف ایک ہاتھ کی ایک انگلی سے ٹائپ کرتا تھا، اس لیے میرے ہاتھ کے رکنے اور اپنی کیفیت پر قابو پانے کا احساس اسے کم ہی ہوا۔ خود بعد میں اس نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ میرا ردعمل اس کے لیے حیران کن تھا کہ اسے لگا کہ میں نے شاید اس کی بات کو سنا ہی نہیں۔

سچی بات یہ ہے، میں نے اپنے لیے کسی لڑکی کے منہ سے پہلی بار ایسے کلمات سنے تھے اور شاید گزشتہ پچیس تیس سال سے اپنے اندر اس طرح کی بات سننے کی شدید تڑپ لیے پھر رہا تھا، مگر ایسا اس انداز میں ہوگا، یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس کے باوجود میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش میں قدرے کامیاب ہوتے ہوئے اس سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے؟

”میں آپ کو کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتی“۔

”کیا مطلب؟ آپ جانتی ہیں، آپ کیا کہہ رہی ہیں؟“

”ہاں میں چاہتی ہوں کہ آپ کا وقت صرف میرے لیے ہو۔“

”میں ایک شادی شدہ آدمی ہوں اور ایک اچھی پرمسرت زندگی گزار رہا ہوں۔“

”وہ دوسری بات ہے۔ میں آپ کے بارے میں سب جانتی ہوں۔“

اس بات نے مجھے پھر چونکا دیا:

”آپ میرے بارے میں کیا کچھ جانتی ہیں؟“

اس کے جواب میں اس نے میری زندگی کی کئی ایک تفصیلات میرے سامنے بیان کردیں۔ ان میں کئی باتیں ایسی تھیں جو میرے خیال میں زیادہ لوگوں کے علم میں نہیں تھیں۔ میرے طالب علم تو ان کو یقینا نہیں جانتے تھے، کیوں کہ میں طلبہ کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں شاذ و ناذر ہی بات کرتا تھا۔ یقینا اس نے میرے بارے میں کافی معلومات حاصل کر رکھی تھیں اور اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کافی دنوں سے میرے اندر دلچسپی لیتی رہی ہے، مگر مجھے اس بات کا اندازہ بالکل نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ میں تقریباً ایک سال سے انھیں پڑھا رہا تھا۔

اپنے طریقہ کار کے برعکس میں نے اس کے لیے باقی طالبات سے الگ دن اور وقت مقرر کریا۔ میں نے اپنے اندر اس کے لیے کسی دلچسپی یا تعلق کی رمق کو محسوس نہیں کیا۔ اگرچہ اپنے اندر ایک سرخوشی اور جوش کی کیفیت ضرور محسوس کی۔ شاید یہ میری ذات کا اثبات تھا۔ اس بات کا اقرار کہ ایک عورت نے میرے مرد ہونے کو نہ صرف تسلیم کیا تھا، بلکہ خود اس کا اقرار کرنے میں پہل کی تھی۔

اس کا تحقیقی کام مکمل ہونے میں دو مہینے لگے۔ اس دوران میں نے اس کی جانب اپنا رویہ بڑا محتاط رکھا۔ وہ بھی زیادہ تر اپنے کام میں لگی رہی، مگر ہر ملاقات میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور کہتی کہ لگتا کہ اس کی میرے اندر دلچسپی ذاتی نوعیت کی ہے اور وہ اپنے خیالوں میں نجانے ہمارے تعلقات کو کیسے کیسے دیکھتی رہتی ہے۔ میرے اندر اس کے لیے کوئی مصنوعی جذبات نہیں تھے۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ وہ اپنا کام مکمل کرے اور چلی جائے۔ اس دوران کوئی ناخوش گوار بات نہ ہو۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور صنف مخالف طلبہ کے درمیان رومانی اور بدنی تعلقات کوئی غیر معمولی بات نہیں اور مرد کی حد تک اسے کوئی ذلت و رسوائی کا معاملہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ میرے بارے میں طلبہ کا خیال تھا کہ یہ ایک روکھا پھیکا بندہ ہے اور اپنے رویے میں کافی روڈ ہے۔ میں اپنے بارے میں بنے اس تصور سے خوش تھا اور اسے برقرار رکھنا چاہتا تھا۔

جس دن سب طلبہ کا زبانی امتحان تھا، اس دن اس نے کافی اہتمام کیا تھا اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ زبانی امتحان کے دوران بھی وہ بار بار مجھے تکتی رہی اور میری خواہش تھی کہ امتحان جلد ختم ہو، اس لیے میں نے بیرونی ممتحن کے بعد کے اس سے کوئی سوال نہ پوچھا اور اسے باہر جانے کی اجازت دی۔ زبانی امتحان کافی دیر تک چلتا رہا۔ مختلف طلبہ اور اساتذہ اپنی باری پر امتحان دیتے رہے اور میں چوں کہ اس امتحان کے انتظامات کا ذمے دار بھی تھا، اس لیے سارا وقت ممتحن کے ساتھ بیٹھا مختلف کام کرتا رہا۔ اس دوران چائے کا دور بھی چلا اور کھانے کا بھی۔ سارے کام نبٹا کر میں کوئی تین گھنٹے بعد ا پنے کمرے کی طرف آیا۔ تو وہ میرے کمرے کے دروازے کے ساتھ کرسی بچھا کر بیٹھی تھی۔ میں قدرے ٹھنکا، مگر پھر پراعتماد قدموں سے کمرے کی طرف آیا، کیوں کہ اس پورے دورانیے میں اس نے کوئی ایسی حرکت بہرطور نہیں کی تھی جو میرے نزدیک قابل اعتراض ہوتی۔

جب میں کمرے کے دروازے پر پہنچا تو وہ کھڑی ہوئی۔ میں نے اسے کمرے میں آنے کے لیے کہا، وہ حسب معمول میز کے بائیں طرف بیٹھ گئی۔ میں نے اسے کامیابی پر مبارک باد دی۔ اس نے پہلی بار مجھ سے چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں جانتا تھا کہ طلبہ زبانی امتحان کے لیے صبح نو بجے کالج آگئے تھے اور اب کوئی تین بجنے والے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اس نے دوپہر کو کچھ کھایا ہے؟ اس نے جھکے سر کو نفی میں ہلایا۔ مجھے لگا کہ وہ اپنے چہرے اور آنکھوں کے تاثرات مجھ سے چھپانا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے کہا، چلو کینٹین پر چل کر چائے پیتے ہیں۔ وہ تو جیسے کھل اٹھی۔ ہم دونوں کینٹین پر آگئے اور اساتذہ کے لیے مخصوص گوشے میں بیٹھ گئے۔ اس وقت وہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میں نے چائے اور سینڈوچ کا آرڈر دیا۔ اس دوران ہمارے درمیان رسمی سی باتیں ہوتی رہیں۔ اس نے مجھ سے میری بیوی اور بچوں کے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے اس کے ماں باپ کی خیریت دریافت کی۔ اس نے بہت آہستہ آہستہ سینڈوچ اور چائے ختم کی۔ اپنے بارے میں کئی باتیں بتاتی رہی۔ وہ ملازمت کرکے اپنی پسند کی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ اچانک اس نے میری آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوئے دھماکا خیز بات کردی۔

”میں آپ کے ہونٹوں کو چومنا چاہتی ہوں۔“

میرے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھ کر کھلکھلا کر مسکرائی، ”یہاں سب کے سامنے نہیں۔“

میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ آج نہیں پھر کبھی سہی۔ اس کی آنکھ میں امید کے دیے روشن ہوگئے۔”آپ پکا وعدہ کرتے ہیں؟“

میں نے صرف اثبات میں سر ہلانا کافی سمجھا۔

ہم جب وہاں سے اٹھے تو دونوں اپنے اپنے طور پر ایک نئے اعتماد اور ایک نئے بھروسے سے اٹھے۔ شاید اس کا خیال ہوگا کہ وہ میرے ساتھ اپنے تعلق کو ایک قدم آگے لے جانے میں کامیاب رہی ہے، جب کہ مجھے اطمینان تھا کہ آج اس کا ادارے میں آخری دن ہے۔ اب اگر وہ کبھی کبھار آئے گی بھی تو سابق طالب علم کے طور پر اور میرے لیے اس سے ملنا کوئی ایسا ضروری نہیں ہوگا۔ میں کسی بھی طرح کے سکینڈل سے خود کو بچالے جانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

میری طرف سے بات ختم ہوچکی تھی کہ ایک دن مجھے ایک کال آئی۔ دوسری جانب روبینہ تھی جو اپنی آواز میں پوری شوخی سمیٹ کر مجھے ہیلو کر رہی تھی۔ خود میرے اندر بیزاری اور جل ترنگ کی کیفیت بہ یک وقت پیدا ہوئی۔ ادھر ادھر کی چند باتوں کے بعد اس نے پوچھا کہ رزلٹ کب تک آئے گا، اور وہ چند دن بعد اپنا رزلٹ کارڈ لینے اور مجھ سے چائے پینے کے لیے آرہی ہے۔ میں نے اپنے محتاط انداز میں جواب دیا کہ ٹھیک ہے وہ ضرور آئے۔

چند دن بعد وہ جب آئی تو اس میں ایک عجیب ترنگ مجھے محسوس ہوئی۔ کمرے میں ہم دونوں تھے۔ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کے ساتھ کمرے میں ہی بیٹھوں یا باہر کینٹین پرجا کر۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ کینٹین پر بیٹھنا زیادہ بہتر ہے۔ میں اسے لے کر کینٹین کی طرف چلا تو اس پل میں مجھے ایک تمکنت کا احساس ہوا۔ میں نے سوچاکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی ہو ا ور میں نے آج سے پہلے کبھی اسے غور سے دیکھا ہی نہ ہو۔ کینٹین پر بیٹھ کر اس نے کہا کہ آج وہ اپنے امتحان میں کامیابی کی خوشی میں ٹریٹ دے رہی ہے۔ میں نے بھی زیادہ تردد نہ کیا۔ اس نے چائے کے ساتھ سینڈوچ اور کیک کا آرڈر دیا۔ اس کی آواز میں ایک سرور محسوس ہوتا تھا۔ اس کی جسمانی حرکات میں ایک ایسا آہنگ جو عورت کے جسم میں ہر روز، ہر کسی کے سامنے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی ساری گفتگو محبت کے گرد گھوم رہی تھی اور میں صرف ہوں ہاں میں جواب دے رہا تھا۔

”آپ میری باتوں کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔“

میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں پوری طرح اس کی بات سن رہا ہوں۔

”میں یہاں چائے پینے یا پلانے تو نہیں آئی۔ میں تو آپ کے وعدے کی تکمیل کے لیے آئی ہوں۔“

”بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔“

”میں بچی نہیں، تیس سال کی جوان عورت ہوں۔“

”میری عمر تم سے دوگنا ہے۔“

”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“

اس وقت تو کسی نہ کسی طرح اسے ٹالنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن یہ بات پوری طرح روشن ہوچکی تھی کہ بات اتنی سادہ نہیں تھی جتنی میں سمجھتا تھا اور میں نے پہلی بار اس سارے معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا۔ ایک طرف میرا خاندان، میری زندگی بھر کی ریاضت، شرافت کا بھرم تھا اور دوسری طرف بطور مرد میرے وجود کا اثبات۔ میں نے اسے یہ بات اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ میری زندگی میں کسی بھی طرح دوسری شادی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے جواب نے مجھے ایک بار پھر چونکا دیا۔ وہ میری زندگی میں رہنا چاہتی تھی۔ پہلے مرد کے طور پر مجھے اپنی زندگی میں قبول کرنا چاہتی تھی۔ شادی کرنے یا نہ کرنے کی اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مجھے شک ہوا کہ وہ صرف مجھے پھنسانے کے لیے جال پھینک رہی ہے۔ جب میں پوری طرح اس کی گرفت میں آجاؤں گا تو پھر مجھے شادی پر راضی کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ میں نے جیب سے یہ ظاہر کرتے ہوئے فون نکالا کہ جیسے کال آئی ہو۔ یہ اہر کیا کہ میری بیوی کی کال ہے اور پھر اس سے معذرت کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا کہ مجھے فوراً گھر پہنچنا ہوگا۔

اس نے میرے عمل پر کسی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ پورے سکون اور اطمینان سے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ میں ضرور جاؤں۔ وہ پھر کسی دن آئے گی۔ مجھے اس سے کیا اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا، اور ہاں وہ اب فون پر مجھ سے مستقل رابطہ رکھے گی۔ میں نے نیم دلی سے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا۔ کمرے سے اپنا بیگ اٹھایا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

اس دن کے بعد اس کی جانب سے ٹیلی فون کالز اور پیغامات کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع ہوگیا۔ دن میں کئی کئی بار سا کی جانب سے پیغام آتے۔ کبھی بالکل سیدھے سادے، کبھی تھوڑے گرم اور کبھی بہت زیادہ گرما گرم۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ پیغامات کہاں سے اور کیسے حاصل کرتی ہے تو اس نے بتایا کہ اپنی سہیلیوں سے۔ ایسی چیزیں تو اب سب کے پاس ہوتی ہیں۔ اس نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بات بڑھائی۔ پھر اس نے وڈیو کلپ اور فلمیں بھی بھیجنا شروع کردیں۔ یہ سلسلہ تقریباً یک طرفہ تھا۔ میں اسے بہت کم جواب میں کچھ بھیجتا۔ کبھی مجھے لگتا کہ وہ مجھے پھنسانے کے لیے بڑی خوب صورتی سے جال بن رہی ہے۔ وہ بڑی تجربہ کار ہے۔ اس کے کئی مردوں سے تعلقات ہیں۔ یہ جو جو مواد وہ کبھی بھیجتی ہے، اسے مردوں سے ملتا ہے۔ مگر پھر یہ سوچتا کہ اگر وہ مجھے جال میں پھنسانا چاہتی ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ کون سا فائدہ وہ مجھ سے اٹھانا چاہتی ہے؟ اس دوران میں اسے آزمانے کے لیے پیسوں، تحفے تحائف کی پیش کش کرچکا تھا۔ اس نے مجھ سے معمولی سی بھی چیز وصول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ایک بار جب میں نے زبردستی اسے کچھ دینا چاہا تو اس نے اس بات کا سخت برا منایا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ ہر بار میرے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آئی۔

جب اس کو پہلی ملازمت ملی تو اس نے اس خوشی میں مجھے کسی ہوٹل میں کھانا کھلانے کی دعوت دی۔ ہوٹل کا انتخاب بھی اس کا اپنا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہاں کھانا بہت اچھا ملتا ہے۔ میں جب ہوٹل میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس میں کیبن بنے ہیں۔ میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر اس نے قہقہہ لگایا، ”فکر نہ کریں آپ بالکل محفو ظ ہیں۔“

ہم دونوں آمنے سامنے کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مجھے لگا کہ ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے پر مایوسی کے سائے لہرائے، مگر اس نے جلد ہی اپنی کیفیت پر قابو پالیا۔ کھانے کا آرڈر بھی اس نے اپنی پسند کے مطابق دیا۔ کھانا کھاتے ہوئے ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ میں جب بھی نظر اٹھا کر دیکھتا اس کی آنکھیں اپنے چہرے پر مرتکز پاتا، ”کیا دیکھ رہی ہو؟“میں نے آخر پوچھ ہی لیا۔

”آپ تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے، سوچا خیالوں میں ہی آپ کو چومتی رہوں۔“

سچی بات یہ تھی کہ مجھے کبھی کبھی اس سے بہت ڈر لگتا تھا۔ گمان گزرتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر گزرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ مجھے پانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی۔ میرے سمجھانے پر کہ بدنی تعلقات کا خمیازہ عورت کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، اس نے نہایت ڈھٹائی سے جواب دیا، ”آپ پریشان نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوا اور کاش ایسا ہو تو میں اسے لے کر کہیں دور چلی جاؤں گی۔ آپ سے صرف اتنی اجازت چاہوں گی کہ ولدیت کے خانے میں آپ کا نام لکھ سکوں۔“ ایک دن جب میں نے مذہب اور اخلاق کے حوالے سے اسے سمجھانے کی کوشش کی، فوراً کہنے لگی، ”میں سب کے سامنے خود کو آپ کی لونڈی اور آپ کو اپنا مالک مان لیتی ہوں۔ پھر تو سب جائز ہو جائے گا۔“ ایسا نہیں کہ اس کی یہ سب باتیں میرے اندر کے مرد کو بیدار نہیں کرتی تھیں۔ مجھے خیال آتا تھا کہ ایک نوجوان لڑکی جب اپنا سب کچھ میرے حوالے کرنے پر تیار ہے اور جواب میں وہ کچھ طلب بھی نہیں کرتی، مگر ایک بات مجھے ہر بار روک دیتی تھی۔ میں جب بھی خود سے یہ سوال کرتا کہ کیا میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں تو ہر بار جواب نفی میں آتا۔ مجھے لگتا کہ اگر میں بغیر محبت کے اس لڑکی سے بدنی تعلقات بناؤں گا تو یہ اس کے ساتھ دھوکا ہوگا۔

یہ جاتی گرمیوں کے خوش گوار دن تھے۔ ایک دن فون پر اس نے مجھے بتایا کہ تین دن بعد اس کی سال گرہ ہے۔ وہ پورا دن میرے ساتھ گزارے گی۔ کسی ایسی جگہ جہاں ہم دونوں اکیلے ہوں۔ یہ بندوبست مجھے کرنا ہوگا۔ میرے لیے ایسا کرنا مشکل تو تھا، لیکن ناممکن نہیں۔ ایک دوست سے میں نے ڈرتے ڈرتے بات کی۔ اس نے حیرت آمیز خوشی کے ساتھ آمادگی اہر کردی کہ وہ تو اپنے گھر میں اکیلا رہتا ہے۔ تیسرے دن وہ آئی تو اس کی چھب دیکھنے کے لائق تھی۔ ہم دونوں میرے ادارے سے باہر ملے۔ اس نے ایک بیکری سے کھانے پینے کا سامان لیا۔ اس دوران میں بس اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس کی چال کا بانکپن دیکھنے والے کو چونکا دیتا تھا۔ مجھے کئی نظریں ہم دونوں کا دور تک تعاقب کرتی محسوس ہوئیں، مگر اس کی کسی بات یا انداز سے نہیں لگتا تھا کہ اسے کسی کی پرواہ ہے۔

گھر میں جب ہم اکیلے رہ گئے تو اس نے بغیر کسی توقف کے میری گردن میں بانھیں ڈال کر اور مجھے اپنا وعدہ وپرا کرنے پر مجبور کردیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس پر سرشاری کی ایک ایسی کیفیت طاری ہے جس کا مشاہدہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ اس دن شاید وہ اپنی زندگی کی ساری حسرتیں پورا کرلینا چاہتی تھی۔ میں بار بار اسے روکتا، اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کرتا۔ ”میں اپنی اس ساگلرہ کو زندگی کا سب سے اہم دن بنانا چاہتی ہوں۔ اس کے بعد میں مر بھی جاؤں تو غم نہیں ہوگا۔“اس کے جذبے کی شدت میرے اندر سب کچھ بدل رہی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے لیے میرے اندر محبت کے جذبات بیدار ہوئے یا نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ میں یہ جان گیا کہ جتنی محبت روبینہ مجھ سے کرتی ہے، ایسی محبت مجھے پوری زندگی حاصل نہیں ہوئی اور نہ شاید آئندہ حاصل ہوگی۔

دن ڈھلے جب ہم اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ شہر میں ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں پر دہشت گردوں نے حملے کئے۔ بہت سے لوگ مارے گئے ہیں۔ سینکڑوں زخمی ہیں۔ سارا شہر ایک ہیجان کی کیفیت میں ہے۔ گھر پہنچا تو بیوی بچے پریشان تھے کہ وہ بار بار رابطے کی کوشش کرتے رہے تھے، جب کہ میرا فون بند جا رہا تھا۔ میں نے نیٹ ورک کے خراب ہونے کا بہانہ بنایا۔ میرے سلامت گھر آنے پر سب مطمئن ہوگئے۔ میں گھر میں بھی ایک عجیب سرور اور سرشاری کی کیفیت میں رہا۔ اگلے دن دوپہر کے وقت جب میں اپنے دفتر میں بیٹھا ایک کتاب پڑھ رہا تھا، مجھے ایک نامعلوم نمبر سے پیغام ملا۔ اس نے لکھا تھا کہ کل گھر والوں سے اس کی لڑائی ہوئی ہے۔ اس نے اپنا موبائل توڑ دیا ہے۔ وہ مجھ سے جلد رابطہ کرے گی۔ پیغام پڑھتے ہی میرے اندر کسی نے صاف بتایا کہ سب ختم ہوچکا ہے۔ شاید زندگی اور محبت کا حاصل، لاحاصلی ہی ہے۔