جرمنی سے خط

یہ تحریر 443 مرتبہ دیکھی گئی

رفقائے مکرم!
حال کچھ یوں ہے کہ الفاظ کے صوتی اظہار سے زبان نہیں بلکہ دماغ قاصر ہے۔ ذہن کی اس حالت سے برسرِ کلام ہوں جہاں مسلسل کام کرنے سے ذہن باآوازِبلند گویائی کے کسی بھی تجربے کو سویکارنے سے انکاری ہو۔ اپنے یہاں پچھلے کئی ماہ سے آغازِ سحر کا سلسلہ احمد جاوید صاحب سے شاعری پڑھنے سے جڑا ہے۔ استاذِ محترم سے ہر روز اتنا کچھ سیکھنے کو ملتا ہے کہ صبح سویرے ہی گوشہ ہائے شعور میں مختلف انواع کی تخیلاتی ممکنات کا انبار لگ جاتا ہے۔ جسکو ایک مربوط تحریری شکل دینے پر ذہن ہر لحظہ بضد رہتا ہے مگر ذہن کی ایسی طفلانہ بے تابیوں سے قطع نظر ہم جی کڑا کر کے اپنا دھیان ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالے پر کام کرنے کی طرف کر لیتے ہیں۔ تاریخِ کشمیر کے موضوع پر ہفتہ بھر کے مطالعے کا آج سارا دن تنقیدی جائزہ لکھنے پر صرف ہوا۔ شام تک شانوں، آنکھوں اور بازؤں نے ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا مگر ذہن کا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ جب اسے اس قدر فنکشنل طرز پر رکھا جاتا ہے تو وہ بآسانی اس سے نبرد آزما نہیں ہوتا جب کہ جسم ایک خاص مدت تک ہی دماغ کے ساتھ نبھا کر پاتا ہے۔ ہمارےساتھ بھی آج کچھ یوں ہی ہوا کہ جسمانی طور پر ہم تھکن سے چور ہو گئے مگر ذہن بیش فعال ہونے کے کیف سے دوچار تھا۔ ایسے میں ہم نے چہل قدمی کی ٹھانی اور “نورڈ فریڈہاف” یعنی میونخ شہر کے شمالی قبرستان کی جانب جاتےہوئے کوچوں کی طرف ہو لئے۔ اوستروالد گلی کے نکڑ میں بیٹھ کر زرد روشنیوں تلےیہ تحریر سپردِ قلم کر رہے ہیں جسکامحرک احمد جاوید صاحب کا وہ ویڈیو لیکچر ہے جس میں انہوں نے علامہ اقبال کی نظم “مزرا غالب” کا زکر کیاہے۔
ہم نے سوچا شاعری کا ذوق کم شوق رکھنے والے اشخاص کی مشکل حل کر دینے میں ہمارا کیا جاتا ہے سوائے ایک آدھ تحریر کے۔ مرزا نوشہ پر لکھی اس نظم میں اقبال لاہوری نے نا صرف مرزا کی قصیدہ گوئی کی ہے بلکہ شاعری کے طلبہ کے لیے پوئٹکس کی تھیوری بیان فرما دی ہے۔ اب یہ ہر ایک کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس سے کتنا سیکھتا ہے۔ علامہ کی نظم کے چند اشعار یوں ہیں:

فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پرِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کجا

دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار

تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں

جس طرح ہر فنونِ لطیفہ کے اعلیٰ اظہار کے پیچھے روایت سے جڑی کوئی نا کوئی تھیوری کارفرما ہوتی ہے اسی طرح عمدہ اور بڑی اردو شاعری کے بھی کچھ لازمی جزو ہیں جو بآسانی مندرجہ بالا اشعار سے کشید کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً
۱۔ حسنِ اظہار
۲- فکرِ انسانی
۳- تخیل

میری ناقص سمجھ کے مطابق حسنِ اظہار کا تعلق زبان پر عبور اور جمالیات سے ہے۔ فکرِ انسانی معنویت اور عقل و شعور کی بلندیوں سے عبارت ہے اورتخیل سے مراد طبیعات و مابعدالطبیعات کی وہ وسعتیں ہیں جہاں حیرت اور احساس ، معنی اور عقل کو شکست دے دیں۔

ضروری نہیں ہر شعری اظہار ان تین اجزا کا پاس کرے بعض شعرگوئی ایسی بھی ہوتی ہے جسکے بارے میں خدائے سخن میر تقی میرؔ نے کہا ہے کہ
ایسی غزل سنا کے جو خواہ خاں ہوں داد کے
یہ بھی بڑا کرم ہے کہ ہوں ہوں کروں ہوں میں
🤭
مزید برآں ایسے شعری فن پارے تخلیق کرنے والوں کا حال چراغ حسن حسرت کی زبانی ان شعراء جیسا ہے جو “ذرا سا گھر میں شور ہوا اور وہ سر کے بال نوچنے لگے۔ ہائے عنقائے مضمون دام میں آکے نکل گیا۔ کم بختو ملعونو تمہارے شور نے اسے اڑا دیا۔” 😋

خیر ہماری تحریر میں کسی کی تحقیر یا تمسخر مقصود نہیں۔ یہ تو بس یونہی زہن کی جگالی کے طور پر ہمارے فارغ الوقتی کا وہ عیش ہے جس کے بارے میں مرزا نوشہ نے اپنے کسی خط میں فرمایا ہے “سنو صاحب ، جس شخص کو جس شغل کا شوق ہو ، اور وہ اس میں بے تکلف عمر بسر کرے ، اسے عیش کہتے ہیں۔”
آج کے لیے اتنا ہی!

دعاؤں کی طالب
کومل راجہ
وِلی گراف ستراسے ۲۱
۸۰۸۰۵
میونخ، جرمنی