جاوید نامہ : مثنوی بھی داستان بھی

یہ تحریر 2121 مرتبہ دیکھی گئی

ہر تخلیق کار کی تخلیقی دنیا میں داخل ہونے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اس طریق میں اختلاف ہو سکتا ہے۔لازم نہیں ہم ایک ہی ڈگر پر چل کر ہر تخلیق کار کی فکری کائنات کی سیاحت کر سکیں۔ اصل میں دنیا میں جتنے لکھنے والے ہیں اتنی ہی ان کی قسمیں ہیں اور جتنے پڑھنے والے ہیں اتنے ان کے طریقے۔ متن ایک ہوتا ہے تعبیریں بے شمار۔ تعبیرات کے اس ازدحام میں ”جاوید نامہ“ پر مجھے داستان کا اشتباہ گزرا۔

”جاوید نامہ“: مثنوی بھی، داستان بھی۔ بھلا یہ کیا عنوان ہوا؟ ایک بات کہو: یا مثنوی، یا داستان۔ کیا مثنوی داستان نہیں ہو سکتی؟ ہو سکتی ہے۔ آخر کتنی مثنویاں ہیں جو منظوم داستانیں بھی ہیں۔ گلزار نسیم، سحر البیان، زہر عشق، داستانیں نہیں تو اور کیا ہیں۔ مثنوی تو ایک ہیئت ہے۔ ایک مسلسل نظم جس میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں گے۔ بھلا مضمون کی قید کا اس سے کیا تعلق۔ اس حوالے سے ”جاوید نامہ“ ہیئت کے اعتبار سے مثنوی ہے اور موضوعاتی ساخت کے اعتبار سے داستان۔ داستان کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ایک ہیرو ہوتا ہے۔ جو خیر کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں ولن جو شر کی نمائندگی کرتا ہے۔ طلسمات، مہمات، حقیقی دنیا، تخلیقی دنیا داستان نویس اپنے تخیل کی مدد سے خیر اور شر کی ان طاقتوں کو دست و گریباں دکھا کر قاری کی باطنی تہذیب کا سامان کرتا ہے۔ ہیرو کی ذات تر فع کی علامت بن جاتی ہے۔ اب داستانی خصائص کی موجودگی ”جاوید نامہ“ میں دیکھتے ہیں۔

بڑی فکر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے لیے اظہار کا بڑا پیمانہ منتخب کرتی ہے۔ ایک اچھوتا راستہ جس پر پہلے کوئی چل نہیں سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرز کا تخلیق کار ایک سوال بن جاتا ہے۔ ایک زندہ سوال جو زمانی و مکانی حدود سے ماوراء ہو کر ہر عہد کے قاری کے دامن گیر رہتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری بھی ایسا ہی اک سوال ہے جو تعبیرات کے جنگل میں اپنی محکم ہیئت میں قائم ہے۔ وہ کبھی بھی مجرد تعبیرات کی پکڑ میں نہیں آسکے گا۔ تعبیرات کی کثرت نے اقبال کے قاری کی سیرابی نہیں کی۔ وہ آج بھی ایسی تعبیر کی تلاش ہے جس کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہو۔

”جاوید نامہ“ ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ یہ کتاب ایسا ناقہ ہے جس کی راہ وار عشق کے ہاتھ میں ہے۔ ہم عشق کو اس داستان کا ہیرو کہ سکتے ہیں۔ عشق اقبال کی نظر میں ایسا عمل کیمیا ہے جو اکسیر کا درجہ رکھتا ہے:

عشق ہم خاکستر و ہم اخگراست

کارِ او از دین و دانش برتر است

عشق سلطان است و برہانِ مبیں

ہر دو عالم عشق را زیرِ نگیں

لازمان و دوش و فردائے ازو

لامکاں و زیرو بالائے ازو

(شرح جاوید نامہ، ص: ۳۷)

اقبال نے اس کتاب کی مدد سے ایک جرس کا کام لیا ہے۔ ایسی گھنٹی جو امت مسلمہ کے سوئے ہوئے ضمیر پر کچوکے لگا کر اسے بیدار کر سکتی ہے۔ ظاہر، باطن، جلوت، خلوت، افلاس، زمین، نور، تاریک، عشق، ہوس، اس کتاب کی ایسی علامتیں ہیں جو اپنے پڑھنے والے کو تصویر کے دونوں رخ دکھاتی ہیں۔ عشق اگر جملہ امراض کی دوا ہے تو ہوس ان بیماریوں کی آماجگاہ۔ جب خودی کمزور ہو جائے تو شر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ ابلیس شر کا نمائندہ ہے۔ اگر داستانی علامتوں میں ا بلیس کو رکھیں تو یہ شر یعنی ولن کا کردار ادا کرتا ہے۔ ابلیس ہمہ وقت اس کشمکش میں مصروف ہے کہ کس طرح اسے فرد پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

”جاوید نامہ“ میں حقیقت اور تخیل ہم آمیز ہو کر معجزات کی سرحدوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ علامہ فرد کی کایا کلپ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ کایا کلپ بھی داستانی ادب کا بڑا موضوع ہے۔ ”جاوید نامہ“ میں علامہ کا تخیل نکھر کر سامنے آیا ہے۔ اس میں افلاک کا بیان بھی ہے جو ایک اعتبار سے ماورائیت کی علامت ہے۔ ہفت افلاک کی سیاحت بھی داستانوں میں مل جاتی ہے۔ ”جاوید نامہ“ میں علامہ افلاک پر مولانا روم کی روح سے ملتے ہیں اور ان کے سامنے اپنا عجز اور خلقت کی باطنی کدورتوں کا ذکر کرتے ہیں:

تمہیدِ زمینی

آشکار امی شود روحِ حضرتِ رومیؒ و شرح می دہد اسرارِ معراج را

عشقِ شور انگیز و بے پروائے شہر

شعلہ او میرد از غوغائے شہر

خلوتِ جوید بدشت و کوہسار

یا لبِ دریائے ناپیدا کنار

  (شرح جاوید نامہ، ص: ۲۳)

اقبال دریافت کرتے ہیں کہ بشر زمانی و مکانی حدود سے ماوراء ہو کر کس طرح عالم بقا میں اپنا وجود ممکن بنا سکتا ہے۔ اس استفسار کے بعد ارواح کا ظہور ہوتا ہے۔ جو ایک سطح پر حقیقت کا ایک رخ ہے جب کہ دوسری سطح پر داستان کا ایک پہلو۔ یہ زمانی و مکانی روحیں ایک فرشتے کی صورت میں مجسم ہوتی ہیں۔ ایسا فرشتہ جس کے چہرے دو ہیں۔ ایک چہرہ روشن جو خیر کی علامت بنتا نظر آتا ہے۔

جلوہئ سروش

مردِ عارف گفتگو را در بہ بست

مستِ خود گردید و از عالم گسست

ذوق و شوق او را ز دستِ او ربود

در وجود آمد ز نیرنگِ شہود

(شرح جاوید نامہ، ص: ۶۷)

جبکہ دوسرا تاریک جو شر کی نشانی۔

طاسینِ زر تشت

آزمایشِ کردنِ اہرمن زر تشت را

اہرمن

از تو مخلوقاتِ من نالاں چو نَے

از تو مارا فرودیں مانندِ دے

(شرح جاوید نامہ، ص: ۷۸)

یہ روحیں شاعر کا رخ افلاک کی طرف کر دیتی ہیں۔

مولانا رومی اور اقبال کی ارواح افلاک پر ان لوگوں کے لیے گیت سنتی ہیں جنہوں نے اپنی خودی کی پرورش کی اور افلاک کو اپنی جستجو کے دائرے میں رکھا۔ ایک طرح کی ماورائیت ہے جس کی مدد سے اقبال تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایسی تبدیلی جو اولاد آدم کے لیے خیر ہو۔ ادب ہے ہی عمل خیر کا تسلسل۔ اقبال نے ”جاوید نامہ“ میں دکھایا ہے کہ روئیدگی کے ساتھ ابتری آکاس بیل کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ جس طرح ریاکاری کے ساتھ خودی برسرِ پیکار ہے۔ اقبال نے جہاں مشرق کے نمائندے دکھائے ہیں وہاں مغرب کی بھی تصویر دکھائی ہے۔ ایک طرف مسلمان کرداروں کی صورت میں تو دوسری طرف ہندوؤں کے رہنماؤں کی شکل میں۔ ایسا نظر آتا ہے اقبال ساری تہذیبوں کے نمائندوں کو اکٹھا کرنے کے بعد کسی ایک نقطے پر لانا چاہتے ہوں۔ توحید کا راستہ۔ جس میں فلاح ہے گوتم:

طاسینِ گوتم

گوتم

مَے دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست

پیشِ صاحب نظراں حورِ جناں چیزے نیست

(شرح جاوید نامہ، ص: ۷۵)

زرتشت:

طاسینِ زر تشت

آزمایشِ کردنِ اہرمن زر تشت را

اہرمن

در جہاں خوار و زبونم کردہ ای

نقشِ خود رنگیں زخونم کردہ ای

(شرح جاوید نامہ، ص: ۷۸)

حضرت عیسیٰ:

طاسینِ مسیح

درمیانِ کوہسارِ ہفت مرگ

وادیِ بے طائر و بے شاخ و برگ

(شرح جاوید نامہ، ص: ۸۴)

 حضرت محمدؐ:

طاسینِ محمدؐ

سینہئ ما از محمدؐ داغ داغ

از دمِ اوؐ کعبہ را گل شد چراغ

(شرح جاوید نامہ، ص:۸۸)

”جاوید نامہ“ میں چراغ ہدایت ہیں۔ سید جمال الدین افغانی:

فلکِ عطارد

مشتِ خاکے کارِ خود را بردہ پیش

در تماشائے تجلی ہائے خویش

                                                (شرح جاوید نامہ، ص: ۹۳)

 حلیم پاشا:

سعید حلیم پاشا

غریباں را زیرکی سازِ حیات

شرقیاں را عشق راز کائنات

(شرح جاوید نامہ، ص:۴ ۱۰)

 احمد شاہ ابدالی:

ابدالی

آن جواں کو سلطنت ہا آفرید

باز در کوہ و قفارِ خود رمید

(شرح جاوید نامہ، ص:۶ ۲۸)

 سلطان ٹیپو:

سلطانِ شہید

بازگو از ہند و از ہندوستان

آں کہ با کاہش نیرزد بوستاں

(شرح جاوید نامہ، ص: ۲۹۴)

 حضرت شاہ ہمدان:

در حضورِ شاہِ ہمدان

از تو خواہم سرِ یزداں را کلید

طاعت از ما جست و شیطاں آفرید

(شرح جاوید نامہ، ص:۷ ۲۵)        

 شرف النسا کا محل:

قصرِ شرف النسا

گفتم ”ایں کاشانہئ از لعلِ ناب

آں کہ می گیرد خراج از آفتاب

(شرح جاوید نامہ، ص:۱ ۲۵)

 جنت کی فضا:

زندہ رود رخصت می شود از فردوسِ بریں و تقاضائے حورانِ بہشتی

شیشہئ صبر و سکونم ریز ریز

پیرِ رومیؔ گفت در گوشم کہ خیز

(شرح جاوید نامہ، ص:۴ ۳۰)

اس میں ان ہستیوں کی موجودگی۔

علامہ اس ساری فضا میں انسانی ترفع کی تلاش میں ہیں۔ جستجو، تجسس، تحیر ان کے دامن گیر ہے۔ داستان بھی تحیر اور تجسس سے تعبیر ہوتی ہے۔ اقبال کا پیرایہ بیان تمثیلی ہے۔ بالکل ایک کہانی کہنے کے انداز میں وہ سارا ماجرا بیان کرتے ہیں۔ کردار بدل رہے ہیں۔ منظر تبدیل ہو رہے ہیں۔ زمان، مکان غرض ایک بڑے اڑن قالین پر بٹھا کر وہ قاری کو فنا اور بقا کے اس جہان سے واقف کرواتے نظر آتے ہیں۔ اقبال نے ”جاوید نامہ“ میں اپنا آپ خرچ کیا ہے۔ اس چراغ کی لو سے ایک عالم روشن ہو گا۔ یہ چراغ خانہ ہے۔ ایک داستان، ایک طلسمانہ، ایک حیرت کدہ ایک متجسس روح کا سفر جو آرائش محفل میں حاتم طائی کی منازل کی طرح ہے۔ وہ سفر بھی خیر کا سفر ہے۔ جس میں دستگیری ہی دستگیری ہے۔ مگر اقبال کا ”جاوید نامہ“ کا سفر روح کی شر پر فتح کا سفر ہے۔ ”جاوید نامہ“ کھلی آنکھوں دیکھی ہوئی دنیا کی نشانی ہے۔ یہ کتاب مسلم امہ بلکہ عالم انسانی کے لیے ایک دعا کی مانند ہے۔ ایسی دعا جس میں سوز ہے جس میں درد مندی ہے۔ اقبال کا پیغام ہر اس بشر کے لیے ہے جو اپنی زندگی کی بنیاد عشق پر رکھتا ہے۔ ”جاوید نامہ“ خیر کی داستان ہے۔ جس کے کردار داستانی کرداروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ مشابہت عمل کی مشابہت ہے۔ بے عملی کا اس مشابہت سے تعلق نہیں۔ اس کا اپنا الگ مقام ہے۔ اقبال کا پیغام زندگی ہے اور ”جاوید نامہ“ زندگی کی داستان۔

حوالہ:

خواجہ حمید یزدانی، ڈاکٹر۔ شرح جاوید نامہ (فرہنگ، ترجمہ اور تشریح)۔ لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/