جابرانہ صارفی کلچر اور ادبی معاشرہ

یہ تحریر 927 مرتبہ دیکھی گئی

۔۔۔
“ایک پست فطرت سیاسی کلچر اور ایک بھوکے، ڈھیٹ، جابرانہ صارفی کلچر نے ہمارے عہد کے ادیب اور ادبی معاشرے، دونوں کو زیر کر رکھا ہے۔ اس کشمکش اور مسلسل تصادم کے موجودہ ماحول میں، میرا موقف ان لکھنے والوں کے ساتھ ہے، جو اجتماعی زندگی اور ایک کثیر الابعاد دُنیا میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والے، مگر اپنے آپ میں تنہا ہیں اور ایک طرح کی بے بسی کے احساس سے دو چار ہیں۔ میرے لیے ادب، ہجوم میں گھرے ہوئے ایک اکیلے شخص (ادیب) اور ایک دوسرے اکیلے شخص (قاری) کے مابین، کبھی نہ ختم ہونے والا ایک مکالمہ ہے…. تنہائی کی تنہائی سے گفتگو۔ یہ مکالمہ جاری رہنا چاہیے اور اسے جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ادیب اور ہمارا ادبی معاشرہ، دونوں، اپنے آپ کو دُنیا طلبی اور حقیر وقتی مراعات کی حصول یابی کے اس چھچھورے، نمائشی اور غرض مندانہ عمل سے آزاد اور محفوظ رکھیں، جس کا جال ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دُنیا کے شعور سے لاتعلق ہو کر نہ تو ادب پیدا کیا جا سکتا ہے، نہ ادب کو پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ ادب کے قاری اور ادب کی تخلیق کرنے والے دونوں کی آزمائش آج کی دنیا میں پہلے سے زیادہ ہے۔ بہ قول نجیب محفوظ،” بدی پر شور اور اودھم مچانے والی اور نیکی سے گمراہ کرنے والی قوت ہے۔“ اور ہم سب کو پتہ ہے کہ آج کے ادب اور آرٹ کی دُنیا میں بھی ایک بے ہنگم شور برپا ہے۔ اس شور میں سچی، کھری، تخلیقی آوازیں آسانی سےسنائی نہیں دیتیں، تاوقتے کہ ادیب اور ادب کا قاری، دونوں اپنی اپنی تنہائی کا جوکھم اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہاں ایک پرانی بات، نئے سرے سے یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ عزت اور ذلت دونوں کا ماخذ اپناہی وجود ہوتا ہے۔ اور شہرت کے ڈانڈے کبھی کبھی رسوائی سے بھی جا ملتے ہیں۔”